پاناما کیس: عدالتی فیصلے سے قبل قیاس آرائیاں عروج پر
ملک بھر میں پاناما کیس کے فیصلے کے انتظار کے ساتھ ساتھ وفاقی دارالحکومت کی فضا میں جوش و خروش بھی بڑھتا چلا جارہا ہے جو کرپشن کے الزامات پر وزیراعظم نواز شریف کی معزولی کا سبب بن سکتا ہے۔
اسلام آباد کے ریڈ زون میں متوقع فیصلے سے قبل ’ریڈ الرٹ‘ جاری کردیا گیا ہے جہاں تقریباً 1500 پولیس، رینجرز، اور فرنٹیئر کانسٹیبلری (ایف سی) کے اہلکار علاقے کی سیکیورٹی اور امن و امان کی صورتحال برقرار رکھنے کے لیے تعینات ہیں۔
پولیس حکام سمیت خصوصی برانچ کے حکام بھی خفیہ اطلاعات اکھٹا کرنے اور بروقت احکامات جاری کرنے لیے سپریم کورٹ کے آس پاس موجود ہیں۔
ریڈ زون میں داخلے کے تمام پوائنٹس پر سخت چیکنگ کے انتظامات ہیں جبکہ ان داخلی مقامات سے صرف متعلقہ افراد، حکومتی حکام اور علاقہ مکینوں کو داخلے کی اجازت دی جارہی ہے۔
داخلی مقامات پر تعینات اہلکاروں کو لوگوں کی چیکنگ اور شناخت کی تصدیق کے ساتھ علاقے میں داخل ہونے کی وجہ اور جس مقام تک وہ جانا چاہتے ہیں، اس کی تفصیلات اکھٹا کرنے کا حکم بھی دیا گیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: عدالتی فیصلےسے قبل سیاسی جماعتوں کا لائحہ عمل
دوسری جانب عدالت کے احاطے میں داخلہ ’پاس‘ کے بغیر ممکن نہیں، عمومی طور پر روزانہ کی بنیادوں پر سپریم کورٹ میں 60 سے 70 رپورٹرز موجود ہوتے ہیں تاہم پاناما پیپرز لیکس کے بعد وزیراعظم نواز شریف اور ان کے اہل خانہ پر لگنے والے کرپشن کے الزامات کے خلاف کیس کے تاریخی فیصلے کے موقع پر عدالت میں سیکڑوں صحافیوں کی آمد متوقع ہے۔
گذشتہ سال اپریل میں بیرون ملک ٹیکس کے حوالے سے کام کرنے والی پاناما کی مشہور لا فرم موزیک فانسیکا کی افشا ہونے والی انتہائی خفیہ دستاویزات سے پاکستان سمیت دنیا کی کئی طاقت ور اور سیاسی شخصیات کے 'آف شور' مالی معاملات عیاں ہو گئے تھے۔
پاکستان کے وزیراعظم نواز شریف کا نام بھی ان کے بچوں کے حوالے سے پاناما لیکس میں سامنے آیا، جس کے مطابق وزیراعظم کے بچے مریم، حسن اور حسین کئی کمپنیوں کے مالکان ہیں یا پھر ان کی رقوم کی منتقلی کے مجاز تھے۔
وزیراعظم نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز نے ابتدائی طور پر ان دستاویزات کو مسترد کیا تاہم بعد ازاں حزب اختلاف کی جماعتوں کی جانب سے الزامات کے جواب میں وزیراعظم کو اس معاملے میں عدالتی تحقیقات کا حکم جاری کرنا پڑا۔
مزید پڑھیں: پاناما کیس: 'انصاف نہ ملا تو لوگ مایوس ہوں گے'
جسٹس آصف سعید کھوسہ، جسٹس گلزار احمد، جسٹس اعجاز افضل خان، جسٹس عظمت سعید اور جسٹس اعجاز الحسن پر مبنی سپریم کورٹ کا 5 رکنی لارجر بنچ اس اہم ترین کیس کی کارروائی کا حتمی فیصلہ آج 2 بجے سنانے والا ہے۔
واضح رہے کہ اس فیصلے کو عوام کے سامنے لانے میں 57 دن کا وقت لگا ہے۔
قانونی ماہرین کی ملی جلی رائے
فیصلے سے قبل سینئر قانون دان اور ماہرین نے ڈان نیوز سے گفتگو میں ملے جلے خیالات کا اظہار کیا۔
صدر سپریم کورٹ بار رشید اے رضوی
’وزیراعظم صادق اورامین نہ ہونے پر براہ راست نااہل نہیں ہوسکتے‘۔
سینئر قانون دان اعتزاز احسن
’شریف خاندان کے خلاف فیصلہ آنا مشکل ہے، سپریم کورٹ انکوائری کمیشن تشکیل دے گا اور کمیشن فریقین کے مہیا کردہ دستاویزات کی تصدیق کرے گا‘۔
سابق وزیر قانون بابر اعوان
’فیصلے سے سنجیدہ اثرات مرتب ہوں گے‘
سینئر قانون دار عاصمہ جہانگیر
’فیصلہ قانون کے مطابق آئے گا، توقعات کے مطابق نہیں‘۔
سینئر قانون دان ذوالفقار علی بھٹہ
’فیصلے سے حکومت کو کوئی خطرہ نہیں‘۔
سینئر قانون دان بیرسٹر سیف
’فیصلے سے کوئی سیاسی بھونچال نہیں آئے گا‘۔
قانونی ماہر فیصل چوہدری
’فیصلہ کرپٹ، بےایمان لوگوں کے لیے رکاوٹ بنے گا، جبکہ نیک، صاف ستھرے لوگ پارلیمنٹ آئیں گے‘۔
قانونی ماہر شیخ حسن الدین
’پوری قوم اور وکلاء کی توقعات وابستہ ہیں، ادارے کی اپنی ساکھ کا معاملہ ہے‘۔