مشعال قتل کیس: پولیس نے سپریم کورٹ میں رپورٹ جمع کروادی
اسلام آباد: مردان کے ریجنل پولیس آفیسر (آر پی او) عالم خان شنواری نے مشعال خان قتل کیس کی رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع کرادی۔
سربمہر لفافے میں جمع کرائی گئی اس رپورٹ میں ابتدائی تفتیش سمیت تشدد کا نشانہ بنانے والے دوسرے زخمی طالب علم عبداللہ کا بیان بھی شامل تھا۔
خیال رہے کہ تین روز قبل چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار نے مردان کی عبدالولی خان یونیورسٹی میں طلبا کے تشدد سے طالب علم مشعال خان کی موت کا نوٹس لیتے ہوئے آئی جی خیبر پختونخوا سے واقعے کی رپورٹ طلب کی تھی۔
عدالت میں جمع کرائی گئی رپورٹ کے مطابق مردان پولیس کو یونیورسٹی انتظامیہ نے 12 بج کر 52 منٹ پر فون کیا تاہم یونیورسٹی انتظامیہ نے واقعے کی اطلاع نہیں دی تھی، محض آنے کا کہا تھا۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ ڈی ایس پی حیدر خان واقعے کے روز جب یونیورسٹی پہنچے تو مشعال کے دوست عبداللہ پر تشدد جاری تھا اور انہوں نے عبداللہ کو تشدد سے بچایا۔
یہ بھی پڑھیں: یونیورسٹی انتظامیہ نے مجھے مشعال کےخلاف گواہی دینے کا کہا،ملزم
اس حوالے سے مزید تحقیقات کے لیے ڈی ایس پی حیدر خان کا کال ڈیٹا ریکارڈ حاصل کرلیا گیا ہے جبکہ واقعے کی سی سی ٹی وی فوٹیج بھی حاصل کی جاچکی ہے۔
سپریم کورٹ میں جمع کرائی گئی رپورٹ کے مطابق پولیس نے یونیورسٹی ملازمین اور فیکلٹی ممبران کو بھی شامل تفتیش کرلیا ہے۔
خیال رہے کہ 13 اپریل کو گستاخی کے الزام میں مشعال خان کو قتل کرنے سے قبل طالب علم عبداللہ کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا تھا تاہم انھیں بچالیا گیا جبکہ طلبا کے ایک گروہ نے مشعال کو قتل کردیا تھا۔
عبداللہ کا بیان
یاد رہے کہ گذشتہ روز مردان کی عبدالولی خان یونیورسٹی میں گستاخی کے الزام پر تشدد کا نشانہ بننے والے طالب علم عبداللہ نے عدالت میں اپنا بیان ریکارڈ کرایا تھا جس میں انھوں نے مشعال خان اور اپنے اوپر لگائے جانے والے تمام الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ 'میں مسلمان ہوں اور مذہبی گھرانے سے تعلق رکھتا ہوں'۔
مزید پڑھیں: مجھ سے مشعال پر گستاخی کا الزام لگانے کو کہا گیا، زخمی طالبعلم عبداللہ
آر پی او کی جانب سے سپریم کورٹ میں جمع کرائے گئے بیان میں عبداللہ کا بیان بھی شامل کیا گیا تھا۔
اپنے بیان میں عبداللہ کا کہنا تھا کہ 'طلبا نے میرے اوپر گستاخی کاالزام لگایا جس کی میں نے تردید کی جبکہ ان کے سامنے کلمہ طیبہ پڑھ کر اردو اور پشتو دونوں زبانوں میں ترجمہ بھی کیا لیکن انھوں نےمجھے زدوکوب کیا اور زبردستی مشعال خان پر گستاخی کا الزام لگانے کا مطالبہ کیا'۔
اپنے اس بیان میں عبداللہ نے یہ بھی کہا تھا کہ واقعے کے روز یونیورسٹی انتظامیہ مشعال خان پر گستاخی کے الزامات کی انکوائری بھی کررہی تھی۔