احسان اللہ احسان نے خود کو فورسز کے حوالے کردیا: پاک فوج
راولپنڈی: پاک فوج نے دعویٰ کیا ہے کہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے سابق ترجمان احسان اللہ احسان نے خود کو سیکیورٹی فورسز کے حوالے کردیا ہے۔
پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ آئی ایس پی آر کے ڈائریکٹر جنرل میجر جنرل آصف غفور نے پریس بریفنگ کے دوران بتایا کہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے سابق ترجمان اور جماعت الاحرار کے موجودہ لیڈر احسان اللہ احسان نے خود کو سیکیورٹی فورسز کے حوالے کردیا ہے جو کہ گزشتہ 15 سالوں کی قربانی کے بعد بڑی کامیابی ہے۔
ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ پاکستانی عوام، ریاست اور ریاستی اداروں نے ملک کی سیکیورٹی کی صورتحال کو بہتر بنانے میں خاطر خواہ پیش رفت کی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ’پاکستان کے لیے اس سے بڑی کوئی کامیابی نہیں ہوسکتی کہ ہمارے سب سے بڑے دشمن راہ راست پر آرہے ہیں‘۔
انھوں نے بتایا کہ 'احسان اللہ احسان ہمارے پاس ہیں اور آنے والے وقت میں اس قسم کی اور بھی اطلاعات شیئر کریں گے'۔
یہ بھی پڑھیں: مولانا فضل اللہ کا اہم ساتھی نوشہرہ سے گرفتار
یاد رہے کہ 2014 میں کالعدم تحریک طالبان میں انتشار کے بعد احسان اللہ احسان جماعت الاحرار کے ترجمان بن گئے تھے جو کہ اس وقت ٹی ٹی پی سے علیحدہ ہونے والا چھوٹا گروپ تھا۔
اس وقت احسان اللہ احسان کا یہ دعویٰ تھا کہ 70 سے 80 فیصد ٹی ٹی پی کمانڈرز اور جنگجو جماعت الاحرار میں شمولیت اختیار کرچکے ہیں۔
رواں برس فروری میں لاہور کے مال روڈ پر ہونے والے خود کش دھماکے کی ذمہ داری بھی جماعت الاحرار نے قبول کی تھی جس میں 13 افراد ہلاک اور 100 سے زائد زخمی ہوئے تھے۔
’نورین لغاری کے والد کا آرمی چیف سے رابطہ‘
پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ آئی ایس پی آر کے ڈائریکٹر جنرل میجر جنرل آصف غفور نے حیدرآباد سے لاپتہ ہونے والی ایم بی بی ایس کی طالبہ نورین لغاری کے حوالے سے کہا کہ 'حیدرآباد سے ایک لڑکی لاپتہ ہوئی پھر اس کا فیس بک پر پیغام آیا کہ میں داعش میں شمولیت اختیار کرگئی ہوں'۔
مزید پڑھیں: 'دہشتگردی کے شبے میں گرفتار لڑکی ایم بی بی ایس کی طالبہ'
ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ 'اس کے بعد لڑکی کے والدین نے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے اپیل کی کہ ہماری بچی کو بازیاب کرایا جائے'۔
میجر جنرل آصف غفور کے مطابق 'آرمی چیف نے ڈائریکٹر جنرل ملٹری انٹیلی جنس کو خاص ہدایات دیں کہ یہ قوم کی بچی ہے اور اسے بازیاب کرانا ہماری ذمہ داری ہے'۔
ڈی جی آئی ایس پی آر نے مزید کہا کہ ایم آئی نے آرمی چیف کی ہدایات ملنے کے بعد اس معاملے پر کام شروع کیا اور 14 اپریل کو لاہور میں ایک کارروائی کی گئی جس کے نتیجے میں لڑکی بازیاب ہوئی'۔
کسی نے اغواء نہیں کیا، مرضی سے گئی، نورین لغاری
ڈی جی آئی ایس پی آر کی پریس بریفنگ کے دوران نورین لغاری کا ریکارڈ شدہ ویڈیو پیغام بھی دکھایا گیا، جس میں انھوں نے بتایا کہ وہ حیدرآباد سے تعلق رکھتی ہیں جن کے والد سندھ یونیورسٹی میں کیمسٹری کے پروفیسر ہیں۔
صوبہ پنجاب کے دارالحکومت لاہور میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کارروائی کے دوران حراست میں لی جانے والی میڈیکل کی طالبہ نورین لغاری کا ویڈیو میں مزید کہنا تھا کہ انہیں نے کسی نے اغواء نہیں کیا، وہ اپنی مرضی سے گئی تھیں۔
انھوں نے بتایا کہ میں خود لیاقت میڈیکل یونیورسٹی میں ایم بی بی ایس ایس سیکنڈ ایئر کی طالبہ ہوں۔
ساتھ ہی انھوں نے واضح کیا کہ مجھے کسی نے اغواء نہیں کیا، میں اپنی مرضی سے لاہور کے لیے روانہ ہوئی تھی۔
نورین نے بتایا کہ 'علی کی شروع سے ہی دہشت گردانہ کاروائیوں کی منصوبہ بندی تھی، جیسے کہ خودکش حملہ کرنا اور انٹیلی جنس اہلکاروں کو اغواء کرنا وغیرہ'۔
یہ بھی پڑھیں: لاہور سے گرفتار نورین لغاری تربیت کیلئے شام بھی گئی
انھوں نے بتایا کہ ’علی کے ساتھ ابو فوجی نام کا ایک لڑکا بھی ملوث تھا، ان کارروائیوں کے لیے یکم اپریل کو 'تنظیم' نے سامان فراہم کیا، جن میں 2 خودکش جیکٹس، 4 ہینڈ گرنیڈز اور کچھ گولیاں شامل تھیں‘۔
نورین نے مزید بتایا کہ ان خودکش جیکٹس کا استعال مسیحیوں کے مذہبی تہوار ایسٹر کے موقع پر کسی چرچ میں کرنا تھا اور خودکش حملے کے لیے مجھے استعمال کیا جانا تھا، لیکن اس سے پہلے ہی 14 اپریل کی رات سیکیورٹی فورسز نے ہمارے گھر پر ریڈ کیا'۔
ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ یہ ویڈیو دکھانے کا مقصد یہ بتانا ہے کہ یہ بچے ہمارے بچے ہیں اور ہماری طاقت ہیں اور جب دہشت گردوں کا نشانہ ہمارے نوجوان ہوجائیں گے تو اندازہ کرلیں کہ اس کے پاکستان پر کیا اثرات ہوں گے۔
انہوں نے کہا کہ یہ ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ ہم اپنے بچوں پر نظر رکھیں کہ ان کی مصروفیات کیا ہیں۔
ڈی جی آئی ایس پی آر نے بتایا کہ نورین لغاری کو ہم نے دہشت گردوں کے چنگل سے چھڑایا ہے اور اب اس کی 'ذہنی بحالی نو' پر کام کیا جائے گا۔
'نورین کبھی شام گئی ہی نہیں'
ایک سوال کے جواب میں ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور نے کہا کہ 'نورین نے فیس بک کے ذریعے پیغام بھیجا کہ وہ شام جارہی ہے لیکن وہ لاہور سے بازیاب ہوئی اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ کبھی شام گئی ہی نہیں'۔
انہوں نے کہا 'یہ دعویٰ کہ نورین نے داعش میں شمولیت اختیار کرلی ہے خود نورین کی جانب سے ہی کیا گیا تھا جبکہ وہ لاہور میں ہی موجود تھی'۔
ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ 'ہمیں یہ دیکھنا ہوگا کہ ہمارے بچے کس طرح ٹیکنالوجی کا استعمال کررہے ہیں، ہماری پہلی کوشش یہ ہے کہ نورین کو معمول کی زندگی کی طرف لے آیا جائے'۔
آپریشن رد الفساد کی تفصیلات
راولپنڈی میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور نے کہا کہ آرمی چیف نے کہا کہ آپریشن رد الفساد شروع ہونے سے اب تک 1859 غیر قانونی افغان باشندوں کو گرفتار کیا گیا۔
آپریشن رد الفساد کے دوران 15 بڑے آپریشنز ہوئے، جن کے دوران 6 لاکھ سے زائد مختلف اقسام کا اسلحہ برآمد کیا گیا۔
انہوں نے بتایا کہ ماضی میں جتنے آپریشن کیے گئے وہ بہت بڑے پیمانے پر کیے جانے والے آپریشنز تھے اور ان کا مقصد علاقے کو کلیئر کرانا تھا اور جب تمام علاقوں کو دہشت گردوں سے کلیئر کرالیا گیا تو ان تمام آپریشنز کی کامیابیوں کو مستحکم کرنے کے لیے رد الفساد شروع کیا گیا۔
مزید پڑھیں: آپریشن ’رد الفساد‘ کا راولپنڈی سے آغاز
ڈی جی آئی ایس پی آر نے بتایا کہ رد الفساد کا مقصد دہشت گردوں کے مقامی سہولت کاروں اور بیرون ملک بیٹھی قیادت اور ملک دشمن عناصر کے ان کے ساتھ رابطے کو ختم کرنا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ رد الفساد 22 فروری کو شروع ہوا اور اب تک پورے پاکستان میں اس کے تحت 15 بڑے آپریشن کیے جاچکے ہیں،4535 انٹیلی جنس بیسڈ آپریشنز کیے گئے،آرمی پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے 723 مشترکہ چیک پوسٹس قائم کیے گئے۔
ڈی جی آئی ایس پی آر کے مطابق 'آپریشنز کے دوران ملک بھر سے 4510 مشتبہ افراد کو گرفتار کیا گیا، 4083 مختلف اقسام کا اسلحہ برآمد کیا گیا، جبکہ 558 فراریوں نے اپنے ہتھیار ڈالے'۔
انہوں نے بتایا کہ 'آپریشن رد الفساد کے تحت اب تک 108 دہشت گرد مارے جاچکے ہیں'۔
سابق صدر آصف علی زرداری کے قریبی ساتھیوں کی گرفتاری کے حوالے سے سوال کا جواب دیتے ہوئے ڈی جی آئی ایس پی آر نے بتایا کہ 'آپریشن رد الفساد قیام امن کے لیے ہے اور اس کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں'۔
پاک افغان سرحد پر باڑ کی تنصیب
ڈی جی آئی ایس پی آر نے پاک افغان سرحد پر باڑ کی تنصیب کے حوالے سے کہا کہ پاک فوج اور فرنیٹیئر کور مل کر سرحد پر چیک پوسٹس اور نئے قلعوں کی تعمیر میں مصروف ہے۔
انہوں نے کہا کہ 2019 تک پاک افغان سرحد پر 338 چیک پوسٹس اور قلعے بنائے جائیں گے جن میں سے 42 تعمیر ہوچکے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: ’پاک افغان سرحد پر باڑ لگانے کا کام شروع‘
آئی ایس پی آر ترجمان کے مطابق 'خیبر پختونخوا میں پاک افغان سرحد پر باڑ لگائی جارہی ہے اور بلوچستان میں بھی پاکج افغان سرحد پر باڑ نصب ہوگی'۔
انہوں نے کہا کہ افغانستان کے ساتھ بارڈر میجنمنٹ اس وقت سب سے اہم معاملہ ہے، ہم سرحد پر اپنی طرف باڑ لگارہے ہیں اور ہمن ایسا کرنے میں آزاد ہیں۔
ایل اور سی کی صورتحال
لائن آف کنٹرول کی صورتحال پر گفتگو کرتے ہوئے میجر جنرل آصف غفور نے بتایا کہ 'لائن آف کنٹرول پر سیز فائر معاہدے کی خلاف ورزی میں اضافہ ہوا ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ بھارت مقبوضہ کشمیر سے دنیا کی توجہ ہٹانا چاہتا ہے'۔
انہوں نے بتایا کہ ایل او سی پر بھارت کی جانب سے 2014 میں سیز فائر کی 315، 2015 میں 248 ، 2016 میں 380 اور 2017 میں اب تک 222 خلاف ورزیاں ہوچکی ہیں۔
کلبھوشن کے معاملے پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا
پریس بریفنگ کے بعد صحافیوں سے غیر رسمی گفتگو کرتے ہوئے ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ 'کلبھوشن یادیو کو ریاست مخالف سرگرمیوں اور دیگر سنگین الزامات پکڑا گیا جس کے بعد کورٹ مارشل کارروائی ہوئی اور سزائے موت سنائی گی'۔
مزید پڑھیں: بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو کو سزائے موت سنا دی گئی
انہوں نے کہا کہ 'یہ فوج کا کام تھا اور فوج نے کہا ہم اس معاملے میں کوئی سمجھوتہ نہیں کریں گے اور نہ ہی کوئی سمجھوتہ کیا اور اسے سزائے موت سنا دی'۔
آصف غفور نے کہا کہ 'اس کے آگے کا عمل قانونی ہے، کلبھوشن کا معاملہ ایپلٹ کورٹ میں جاسکتا ہے اور پھر آرمی چیف کے پاس رحم کی درخواست بھی کی جاسکتی ہے'۔
انہوں نے کہا کہ 'آرمی چیف سے رحم کی اپیل کے بعد سپریم کورٹ میں اپیل اور پھر صدر مملکت سے رحم کی اپیل کا آپشن بھی موجود ہے'۔
ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ 'کورٹ مارشل کی کارروائی میں ایسے ثبوت کی بنیاد پر فیصلہ کیا گیا جسے کسی فورم پر بھی جھٹلایا نہیں جا سکتا تاہم اگر اس معاملے کو کسی بھی فورم پر لے جایا گیا تو فوج اپنا مقدمہ بھرپور طریقے سے لڑے گی'۔
انہوں نے کہا کہ 'کلبھوشن کو قانون کے تحت قونصلر رسائی نہیں مل سکتی تھی اور نہ ملے گی، کلبھوشن معاملے پر انصاف کے تمام تقاضے پورے کیئے گئے'۔