مبینہ گستاخی: یونیورسٹی انتظامیہ نے مقتول کو ملزم قرار دیدیا
مرادن کی عبدالولی خان یونیورسٹی (اے ڈبلیو کے یو ایم) کی انتظامیہ نے طلبہ کے تشدد سے ہلاک ہونے والے مشعال پر اس کی موت کے بعد گستاخی کا الزام عائد کردیا۔
یونیورسٹی کے اسسٹنٹ رجسٹرار کی جانب سے ویب سائٹ پر جاری نوٹی فکیشن میں، جس پر 13 اپریل کی تاریخ درج ہے، کہا گیا کہ ’شعبہ صحافت کے تین طلبہ عبداللہ، مشعال اور زبیر کی جانب سے گستاخانہ سرگرمیوں کے معاملے کی تحقیقات کے لیے انکوائری کمیٹی تشکیل دے دی گئی ہے۔‘
نوٹی فکیشن کے مطابق ’ان طلبا کو عارضی طور پر معطل کیا جاتا ہے اور اگلے احکامات تک ان کی یونیورسٹی میں داخلے پر پابندی عائد کی جاتی ہے۔‘
یونیورسٹی انتظامیہ کی جانب سے مبینہ گستاخی کی تفصیلات یا طالب علم کے قتل کی نوٹی فکیشن میں مذمت نہیں کی گئی، حالانکہ عبدالولی خان یونیورسٹی کے فوکل پرسن فیاض علی شاہ کا کہنا تھا کہ نوٹی فکیشن تشدد کے واقعے کے بعد جاری کیا گیا گیا۔
یہ بھی پڑھیں: گستاخی کا الزام، ساتھیوں کے تشدد سے طالبعلم ہلاک: پولیس
فیاض علی شاہ سے جب پوچھا گیا کہ یونیورسٹی انتظامیہ نے مقتول طالب علم کو کیوں معطل کیا، تو ان کا کہنا تھا کہ ’غلطی سے مشعال کا نام نوٹی فکیشن میں شامل ہوا۔‘
گزشتہ روز مردان میں واقع عبدالولی خان یونیورسٹی میں دیگر طلبہ کے تشدد سے ایک 23 سالہ طالب علم کی موت ہوگئی تھی جبکہ ایک طالب علم زخمی ہوا۔
ڈی آئی جی مردان عالم شنواری کے مطابق ہلاک ہونے والے طالب علم پر الزام تھا کہ اس نے فیس بک پر ایک پیج بنا رکھا تھا، جہاں وہ توہین آمیز پوسٹس شیئر کیا کرتا تھا۔
انہوں نے بتایا کہ اسی الزام کے تحت مشتعل طلبہ کے ایک گروپ نے مشعال پر تشدد کیا، جس کے نتیجے میں طالب علم ہلاک ہوگیا۔
واقعے کے بعد یونیورسٹی سے متصل ہاسٹلز کو خالی کرالیا گیا جبکہ یونیورسٹی کو غیر معینہ مدت کے لیے بند کردیا گیا۔
مردان کے ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر ڈاکٹر میاں سعید کے مطابق اس واقعے کے بعد سے 45 افراد کو حراست میں لیا جاچکا ہے۔
تبصرے (3) بند ہیں