’کلبھوشن پاکستان کی سالمیت کو نقصان پہنچانے میں ملوث‘
اسلام آباد: وزیر اعظم نواز شریف کے مشیر برائے امور خارجہ سرتاج عزیز نے کہا ہے کہ کلبھوشن کے خلاف تمام تر کارروائیاں قانون کے مطابق کی گئی ہیں۔
اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ کلبھوشن یادیو پاکستان کی سالمیت کو نقصان پہنچانے میں ملوث رہا ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ کلبھوشن بھارتی نیوی کا حاضر سروس افسر ہے، وہ پاکستان میں دہشت گردی کا مرتکب ہے۔
ہندوستانی جاسوس کے حوالے سے انہوں نے بتایا کہ کلبھوشن ’’را‘‘ کےلیے جاسوسی کررہا تھا، کلبھوشن کی دہشت گردانہ کارروائیوں میں متعداد افراد ہلاک ہوئے، کلبھوشن کو گزشتہ سال مارچ میں بلوچستان سے گرفتار کیا گیا۔
چارج شیٹ
سرتاج عزیز کا کہنا تھا کہ کلبھوشن یادیو کو پاکستان میں دہشت گردی کی ان کارروائیوں کا ذمہ دار پایا گیا۔
کلبھوشن نے گوادر اور تربت میں ریموٹ کنٹرول اور دستی بم کے حملوں میں سہولت کار کا کردار ادا کیا۔
اس نے جیوانی بندرگاہ کے بالمقابل سمندر میں ریڈار اسٹیشن اور شہری کشتیوں پر حملوں کی ہدایت کی۔
پاکستان اور بالخصوص بلوچستان میں تخریبی کارروائیوں کے لیے نوجوانوں کو اکسانے کے لیے علیحدگی پسند تخریب کاروں اور دہشت گرد عناصر کی حوالہ اور ہنڈی کے ذریعے فنڈنگ کی۔
بلوچستان کے علاقوں سبی اور سوئی میں گیس پائپ لائنز اور الیکٹرک پائلنز کو دھماکوں سے اڑانے کے لیے اسپانسر کیا۔
کوئٹہ میں 2015 میں ریموٹ کنٹرول دھماکوں کو اسپانسر کیا، جس کے نتیجے میں بڑا جانی و مالی نقصان ہوا۔
ایران سے آمد و رفت کرنے والے ہزارہ برادری کے افراد پر کوئٹہ میں حملے کو اسپانسر کیا۔
2014-15 کے دوران ریاست مخالف عناصر کے ذریعے قانون نافذ کرنے والے اداروں، فرنٹیئر کور اور فرنٹیئر ورکس آرگنائزیشن کے خلاف تربت، پنجگور، گوادر، پسنی اور جیوانی میں حملوں کی مجرمانہ اعانت کی، جس کے نتیجے میں متعدد فوجی اہلکار اور شہری ہلاک و زخمی ہوئے۔
مشیر خارجہ نے بتایا کہ کلبھوشن کا قانون کے مطابق فیلڈ کورٹ مارشل کیا گیا، کورٹ مارشل میں کلبھوشن کا اعترافی بیان پیش کیا گیا، اس کا اعترافی بیان ضابطہ فوجداری کے تحت ریکارڈ کیا گیا جبکہ کلبھوشن کو صفائی کے لیے لاء افسر کی سہولت فراہم کی گئی۔
سرتاج عزیز نے ابتداء سے تمام معاملات بتاتے ہوئے کہاکہ 25 مارچ 2016 کو کلبھوشن یادیو کا اعترافی بیان سامنے آیا تھا جبکہ اس سے 23 دن قبل اس کو گرفتار کیا گیا تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ 8 اپریل 2016 کو کلبھوشن کے خلاف انسداد دہشت گردی کی دفعات کے تحت کوئٹہ میں درج ہوا، ابتدائی تفتیش 2 مئی 2016 کو ہوئی جبکہ تفصیلی تفتیش 22 مئی 2016 کو ہوئی، مشترکہ تحقیقاتی ٹیم 12 جولائی 2016 کو بنی، کلبھوشن کا اعترافی بیان 22 جولائی 2016 کو ریکارڈ ہوا، 24 ستمبر 2016 کو تمام ثبوت پیش کیے گئے، جبکہ سماعت کا آغاز 21 ستمبر کو ہوا تھا۔
انہوں نے کہا کہ دوسری سماعت 19اکتوبر ، تیسری 29 اکتوبر جبکہ چوتھی سماعت 12 فروری 2017 کو ہوئی، جبکہ سزائے موت کی منظوری 10 اپریل کو دی گئی۔
سرتاج عزیز نے کہا کہ کلبھوشن کا ٹرائل پاکستان کے قانون کے مطابق شفاف بنانے کے لیے تمام اقدامات خاص طور پر کیے گئے۔
انہوں نے بتایا کہ کلبھوشن کا اعترافی بیان جوڈیشل مجسٹریٹ کے سامنے ریکارڈ کیا گیا، جس کی سماعت قانون شہادت کے تحت ہوئی۔
مشیر امور خارجہ کا مزید کہنا تھا کہ ایک قانونی مشیر کلبھوشن کو فراہم کیا گیا تھا جو پوری عدالتی کارروائی کے دوران ان کا دفاع کر سکے جبکہ تمام گواہوں کے حلفیہ بیانات ملزم کے سامنے ہی ریکارڈ ہوئے، جبکہ کمانڈر کلبھوشن کو بھی سوالات کرنے کی اجازت دی گئی۔
کلبھوشن کو دی گئی سزاء پر ان کا کہنا تھا کہ اس کو سماعت کی تکمیل پر اعلیٰ عدالت سزا سنائی گئی۔
کیس کے حوالے سے ان کا مزید کہنا تھا کہ کلبھوشن کے پاس اب بھی کچھ آپشن موجود ہیں، وہ 40 روز میں فیصلے کے خلاف اپیل کر سکتے ہیں، اپیلٹ کورٹ کے فیصلے پر وہ آرمی چیف سے 60 دن میں معافی کی درخواست کر سکتے ہیں، جبکہ ان کے فیصلہ خلاف آنے پر وہ 90 روز میں پاکستان کے صدر سے بھی معافی کی درخواست کر سکتے ہیں۔
مشیر خارجہ کا کہنا تھا کہ یہ بات واضح رہنی چاہیے کہ کلبھوشن کا ٹرائل ایک مکمل شفاف طریقے سے کیا گیا، اس کو دی گئی سزا اس کے خلاف موجود شواہد کی بنیاد پر دی گئی۔
یہ بھی پڑھیں : کلبھوشن یادیو کے معاملے پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا، فوج
ہندوستان سے معلومات کے تبادلے کے حوالے سے انہوں نے بتایا کہ 26 جنوری 2017 کو ہندوستان کے ساتھ معلومات کا تبادلہ کیا گیا تھا جس کا نئی دہلی سے کوئی جواب نہیں ملا۔
انہوں نے کہا کہ ہم ہندوستان سے یہ سوال کریں گے کہ کلبھوشن کیوں ایک مسلمان کے نام سے پاسپورٹ بنا کر جعلی شناخت کے ساتھ کیا کر رہا تھا، اگر وہ بے گناہ تھا تو وہ 2 پاسپورٹ لے کر گھوم رہا تھا، جس میں ایک میں اس کا ہندو نام تھا جبکہ دوسرا مسلمان کے نام سے تھا۔
سرتاج عزیز نے کہا کہ ہندوستان کے پاس کوئی وضاحت موجود نہیں کہ ان کا ایک حاضر سروس کمانڈر بلوچستان میں کیوں موجود تھا۔
انہوں نے ہندوستان کے رہنماوں کی جانب سے بیانات اور اعتراضات کو بھی بلاجواز قرار دیا، نئی دہلی کی جانب سے بے بنیاد الزامات کی بھی انہوں نے مذمت کی۔
نئی دہلی کی کلبھوشن تک قونصلر کی رسائی مسترد پر انہوں نے کہا کہ ہندوستان بھی کئی سال سے متعدد پاکستانیوں تک اسلام آباد کی قونصلر رسائی کی درخواست مسترد کرتا رہا ہے۔
انہوں نے امید ظاہر کی کہ ہندوستان اب ذمہ داری کا مظاہرہ کرے گا اور غیر ذمہ دارانہ بیانات کا سلسلہ ختم ہو گا۔
مزید پڑھیں: کلبھوشن کو بچانے کیلئے ہر حد تک جائیں گے: بھارت
مشیر خارجہ نے کہا کہ مکمل قانونی طریقے کار کے بعد کلبھوشن کی سزا پر تمام سیاسی جماعتیں متفق ہیں کیونکہ وہ پاکستان مخالف سرگرمیوں کے ساتھ دہشت گردی کے فروغ میں بھی ملوث تھا۔
یاد رہے کہ رواں ہفتے 10 اپریل کو پاکستان کی جاسوسی اور کراچی اور بلوچستان میں تخریبی کارروائیوں میں ملوث بھارتی ایجنٹ کلبھوشن یادیو کو سزائے موت سنائی گئی تھی۔
آئی ایس پی آر کی جانب سے جاری ہونے والے بیان میں کہا گیا کہ بھارتی خفیہ ایجنسی ’را‘ کے حاضر سروس افسر کلبھوشن یادیو کو یہ سزا پاکستان میں جاسوسی اور تخریب کاری کی کارروائیوں پر سنائی گئی تھی۔
کلبھوشن یادیو کا ٹرائل فیلڈ جنرل کورٹ مارشل نے پاکستان آرمی ایکٹ 1952 کے سیکشن 59 اور سرکاری سیکرٹ ایکٹ 1923 کے سیکشن 3 کے تحت کیا تھا، جس کی توثیق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے بھی کردی تھی۔
یہ بھی پڑھیں: کلبھوشن کی سزا کے بعد کیا ہوگا؟
سزا کا فیصلہ سامنے آنے کے بعد اپنے فوری ردعمل میں بھارت کا کہنا تھا کہ اگر کلبھوشن یادیو کی سزائے موت پر عملدرآمد ہوا تو یہ ’پہلے سے سوچا سمجھا قتل‘ تصور کیا جائے گا۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق بھارتی دفتر خارجہ نے پاکستانی ہائی کمشنر عبدالباسط کو طلب کرکے کلبھوشن یادیو کو سزائے موت سنائے جانے کو 'مضحکہ خیز' قرار دیتے ہوئے انہیں احتجاجی مراسلہ بھی دیا تھا۔
کلبھوشن کی گرفتاری
بھارتی جاسوس اور نیوی کے حاضر سروس افسر کلبھوشن یادیو کو 3 مارچ 2016 کو حساس اداروں نے بلوچستان کے علاقے ماشکیل سے گرفتار کیا تھا۔
'را' ایجنٹ کی گرفتاری کے چند روز بعد اس کی ویڈیو بھی سامنے لائی گئی تھی، جس میں کلبھوشن یادیو نے اعتراف کیا تھا کہ اسے 2013 میں خفیہ ایجنسی 'را' میں شامل کیا گیا اور وہ اس وقت بھی ہندوستانی نیوی کا حاضر سروس افسر ہے۔
مزید پڑھیں: ’را ایجنٹ مراٹھی بولنے کے باعث گرفتار ہوا‘
کلبھوشن نے یہ بھی کہا تھا کہ 2004 اور 2005 میں اس نے کراچی کے کئی دورے کیے، جن کا مقصد 'را' کے لیے کچھ بنیادی ٹاسک سرانجام دینا تھا جب کہ 2016 میں وہ ایران کے راستے بلوچستان میں داخل ہوا۔
ویڈیو میں کلبوشھن نے اعتراف کیا تھا کہ پاکستان میں داخل ہونے کا مقصد فنڈنگ لینے والے بلوچ علیحدگی پسندوں سے ملاقات کرنا تھا۔
اہنے اعترافی بیان میں کلبھوشن یادیو نے یہ بھی کہا تھا کہ بلوچستان کی علیحدگی پسند تنظیموں کی متعدد کارروائیوں کے پیچھے 'را' کا ہاتھ ہے۔