موسمیاتی تبدیلی ایکٹ پر ماہرین کے تحفظات
گزشتہ ماہ ایوان بالا یعنی سینیٹ سے موسمیاتی تبدیلی ایکٹ کی منظوری کا خیرمقدم متعدد حلقوں نے کیا، موسمیاتی آفات کے خطرے سے دو چار ملک کے لیے یہ قدم بالکل درست سمت میں ہے۔
وزارت موسمیاتی تبدیلی کے سربراہ سینیٹر زاہد حامد کے تحریر کردہ بل کو منظور کرنے کا مقصد اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ ملک ماحولیاتی تبدیلیوں اور ان کے اثرات سے متعلق بین الاقوامی معاہدوں کے تحت اپنی ذمہ داریوں پر پورا اترے، اگرچہ پاکستان گرین ہاؤس گیس خارج کرنے والے ملکوں میں 153 ویں نمبر پر ہے، تاہم زاہد حامد نے سینیٹ کو بتایا کہ موسمیاتی تبدیلی سے متاثر ہونے والے ممالک میں ہمارا نمبر ساتواں تھا، اس بل کو قومی اسمبلی میں پہلے ہی منظور کیا جاچکا ہے۔
مچل نچمنے کا کہنا ہے کہ اس نئے قانون کے ساتھ پاکستان اُن چند مٹھی بھر ممالک کی فہرست میں شامل ہوگیا، جنہوں نے خاص موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے نمٹنے کے لیے قانون سازی کی ہے، واضح رہے کہ مچل نچمنے گرانتھم انسٹیٹیوٹ میں موسمیاتی قانون سازی کے حوالے سے عالمی جائزے کی قیادت کر رہے ہیں۔
ادارے کے 99 ملکوں کے جائزے کے مطابق سال 2017 میں موسمیاتی تبدیلی اور توانائی سے متعلق 400 سے زائد قوانین تشکیل دیے گئے ہیں، بہرحال، بہت کم ممالک جیسے فن لینڈ، برطانیہ، ڈنمارک، کینیا، آسٹریلیا، بلغاریہ، نیوزی لینڈ، آسٹریا، سوئٹزرلینڈ، مائکرونیزیا اور فلپائن نے موسمیاتی تبدیلی ایکٹ باقاعدہ منظور کیا ہے۔
وزارت موسمیاتی تبدیلی کے سیکریٹری سید ابو احمد عاکف کہتے ہیں کہ موسمیاتی تبدیلی کا مقابلہ کرنے کے لیے وقف ایک قومی ادارہ ہونا پاکستان کے لیے قابل ستائش ہے، لیکن دیگر ماہرین کو اس بات کا خدشہ ہے کہ اس اقدام سے کوئی خاص نتیجہ حاصل نہ ہوگا۔
برلن میں قائم ادارہ برائے موسمیاتی تجزیات کے سائنسی مشیر فہد سعید کہتے ہیں "بل میں بیشتر بنیادی باتوں کا احاطہ کیا گیا ہے” ، ان پالیسیوں کو لاگو کرنے کے لیے جس ” آتشی طاقت ” کی ضرورت ہے اس کے بغیر کوئی خاطر خواہ نتیجہ حاصل نہیں ہوگا۔
آئی یو سی این (IUCN) کے عالمی نائب صدر، ملک امین اسلم صاحب کے مطابق، یہاں آتشی طاقت سے مراد حکومتی سطح پر سیاسی عزم اور مناسب فنڈز ہیں، امین اسلم صاحب کہتے ہیں کہ جب تک "آہنی ارادے” اور "عملی اقدامات” نہیں ہوں گے بل کی تشکیل محض "‘کاغذی کارروائی” ہے۔
"یہ بل اس لحاظ سے کارآمد ہے کہ یہ پاکستان کے انٹنڈڈ نیشنلی ڈیٹرمیںڈ کونٹریبوشنز Pakistan’s Intended Nationally Determined Contributions (INDCs) کو قانونی شکل دیتا ہے۔
ملک امین اسلم نے تھرڈ پول کو بتایا ' UNFCC کے تحت اس بات کا وعدہ اور تعمیل کا عہد کیا گیا کہ علمی اخراج کو دو ڈگری سینٹی گریڈ حرارت کی حد سے نیچے رکھیں گے اور اعلیٰ سطح کی فیصلہ ساز باڈی تشکیل دیں گے، لیکن پچھلے کئی سالوں سے ہم موسمیاتی خطرات کے بیچ ڈھیروں پالیسیاں، حکمت عملی اور انتظامی آرگنائزیشنز بنا چکے ہیں اور یہ بل اس ڈھیر میں ایک اور اضافہ ہے”۔
نئے قانون کے تحت تین اہم ادارے تشکیل پاکستان کونسل برائے موسمیاتی تبدیلی، پاکستان موسمیاتی تبدیلی اتھارٹی اور پاکستان فنڈ برائے موسمیاتی تبدیلی دیئے گئے ہیں۔
امین اسلم کے مطابق بہتر ہوگا کہ گورنمنٹ اپنی حمایت اور سرمایہ براہ راست صوبوں کو دے جو پہلے ہی موسم کے موافق منصوبوں پر عمل درآمد کررہے ہیں۔
ملک امین اسلم پاکستان کے سب سے کمزور صوبے خیبر پختونخواہ کی سبزکاری مہم کی سربراہی بھی کررہے ہیں۔ پچھلے تین سالوں میں خیبر پختونخواہ نے موسمیاتی تبدیلی سے متعلق کچھ ٹھوس اقدامات کر کے ایک مثال قائم کی ہے کہ مقامی سطح پر کیا کچھ کیا جاسکتا ہے۔
صوبے میں دو سو مائکرو۔ہائیڈرو پاور منصوبے تعمیر کے گئے ہیں (سال کے اختتام تک ڈیڑھ سو مزید منصوبے مکمل کرلیے جائیں گے)، جنگلات میں دو فیصد اضافہ (2013 کے بیس فیصد سے 2016 میں بائیس فیصد تک) صوبائی فنڈ برائے موسم دوست جنگلات میں 700 فیصد یعنی 2013 میں تین سو ملین روپے ( 2.86 USD) سے لے کر 2016 میں دو بلین (19 ملین ) تک اضافہ ہوا ہے۔
اختیارات کا مسئلہ:
نئے بل سے ممکن ہے مرکز اور صوبوں کے بیچ اختیارات کا مسئلہ کھڑا ہو، آب و ہوا اور پانی سے متعلق تھنک ٹینک – لیڈ پاکستان (LEAD) کے سربراہ علی توقیر شیخ کہتے ہیں ”اگر احتیاط سے منصوبہ بندی نہ کی گئی تو خدشہ یہ ہے کہ اٹھارویں ترمیم (جس کے تحت اختیارات صدر سے پارلیمنٹ اور صوبوں کو منتقل کردیئے گئے) کے بعد صوبے کو جو اختیارات حاصل ہیں، وہ ختم ہوجائیں’۔
آئین کی رو سے، موسمیاتی تبدیلی صوبوں کے دائرہ اختیار میں آتی ہے، عاکف صاحب نے اتفاق کرتے ہوئے کہا، "لیکن موسمیاتی تبدیلی اتنا اہم موضوع ہے کہ اسے صوبوں اور بلدیات پر نہیں چھوڑا جاسکتا، اب یہ سائنسدانوں، محققین اور سیاستدانوں کا کام ہے کہ وہ چاہیں اس کشتی کو پار لگائیں یا غرق کردیں "۔
تحقیق کا فقدان:
سعید صاحب کہتے ہیں کہ کوئی بھی بل اُس وقت تک قابل عمل نہیں جب تک اسے درست معلومات، بصیرت اور نفاذ کے لیے اتھارٹی کا سہارا نہ ہو۔
ان کا کہنا ہے کہ پاکستانی سائنسدان، بین الاقوامی ریسرچ جرنلز میں مشکل ہی سے کوئی معیاری ریسرچ پیش کرپاتے ہیں، ”ہم اپنے کام کا جائزہ بین الاقوامی جرائد میں اعلیٰ معیار کی مطبوعات کے ذریعے عالمی محققین کے ہاتھوں ہونے کے بجائے میڈیا پر پیش کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ میری نظر سے ایسے بہت سے مطالعے گزرے ہیں جو خاص طور سے موسمی تبدیلی کے نقطہ نظر سے پاکستان پر کیے گئے، جن کے مصنف میں سے کسی کا بھی (یا مشکل سے ایک) تعلق پاکستانی انسٹیٹیوٹ سے نہیں تھا، جس سے ہمیں اندازہ ہوتا ہے کہ صورتحال کتنی افسوسناک ہے”۔
وزارت کے ریسرچ ونگ اور موسمیاتی تبدیلی پر سائنٹیفک تحقیق کے لیے وقف واحد ادارے، گلوبل چینج امپیکٹ اسٹڈیز سینٹر (GCISC) کی مثال دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ، اس سینٹر کا مقصد ملکی سائنٹفک ریسرچ کو مستحکم کرنا ہے لیکن پچھلے تین چار سالوں سے یہاں کے سربراہی عہدوں پر کوئی تقرری نہیں ہوسکی۔
ڈونر فنڈز کی فراہمی :
عاکف صاحب نے بتایا نئی پاکستان کلائمیٹ چینج کونسل کے سربراہ وزیراعظم ہوں گے، جبکہ دیگر "بااثر” ممبران وزرائے اعلیٰ ہوں گے جن کا کردار علاقائی سربراہ کا ہوگا، مزید اس میں ماحولیات کے چاروں صوبائی وزراء بھی شامل ہوں گے اور باقی کونسل کے 20 ارکان تعلیمی اداروں، تجارت اور صنعت اور سائنس کے نمائندے ہوں گے۔ ایک طرف کونسل، وزارت موسمیاتی تبدیلی کو ہدایات دے گی، دوسری طرف دنیا کو یہ بتائے گی کہ پاکستان موسمیاتی تبدیلیوں کو کتنی اہمیت دیتا ہے۔
ڈیلاویئر یونیورسٹی میں ماحولیات اور توانائی کے پروفیسر سلیم ایچ علی کا کہنا ہے، "مجھے خدشہ ہے کہ اس بل کی منظوری کے پیچھے محرک صرف گرین کلائمیٹ فنڈ اور دیگر ذرائع کے ڈالرز تک رسائی ہے”۔
زاہد حامد نے حال ہی میں ایکٹ کی وضاحت میں ایک تقریر کی جس میں بتایا کہ ایکٹ صرف "موسمیاتی خطرات” سے ہی نہیں نمٹے گا بلکہ لوگوں کی زندگیوں اور ذریعہ معاش کے تحفظ، خاص کر کاشتکاروں کی خاطر منصوبوں کے نفاذ کے لیے "عالمی فنڈز بھی ممکن” بنائے گا۔
لیکن سلیم ایچ علی نے کہا، "اگر مقصد فنڈز حاصل کرنا ہے تاکہ موسم موافق منصوبوں کی شروعات کی جاسکے، تو ان فنڈز کوموثر طریقہ سے استعمال کیا جانا ہی اصل امتحان ہوگا”۔
شیخ، جو کلائمیٹ اینڈ ڈویلپمنٹ نالج نیٹ ورک (CDKN) کے ایشیا ڈائریکٹر بھی ہیں، سوال کرتے ہیں کہ اگر کونسل برائے موسمیاتی تبدیلی نے کلائمیٹ چینج اتھارٹی تشکیل دی تو کیا وہ موجودہ وزارت برائے موسمیاتی تبدیلی کے متوازی کام کرے گی یا اس کی اتھارٹی پر اثر انداز ہوگی؟
لیکن عاکف صاحب نے اس بات پر زور دیتے ہوئے کہا کہ کلائمیٹ چینج اتھارٹی، وزارت کا "عملی بازو” ہے جو قانون سازی اور عالمی روابط کے معاملات دیکھے گی۔
سلیم ایچ علی کا کہنا تھا کہ اگر اتھارٹی کی حیثیت "عملی بازو” کی ہے تو اس کی توجہ ”فنڈز تک رسائی حاصل کرنے کے بجائے، اندرونی طور پر موسمیاتی تبدیلی کے خطرات سے نمٹنے کے لیے قانون سازی پر مرکوز ہونی چاہیے”، مثال کے طور پر ہاؤسنگ اور کمرشل رئیل اسٹیٹ میں توانائی کی زیادہ بچت کے لیے تعمیراتی کوڈ یقینی بنانا یا سیلاب کا شکار بننے والے علاقوں یا ساحلی علاقوں کی درجہ بندی کرنا تاکہ وہاں کی آبادیوں کو محفوظ رکھا جاسکے۔
یہ مضمون پہلے دی تھرڈ پول میں شائع ہوا جہاں سے اجازت کے بعد یہاں شائع کیا جارہا ہے۔