• KHI: Asr 4:13pm Maghrib 5:49pm
  • LHR: Asr 3:27pm Maghrib 5:05pm
  • ISB: Asr 3:27pm Maghrib 5:05pm
  • KHI: Asr 4:13pm Maghrib 5:49pm
  • LHR: Asr 3:27pm Maghrib 5:05pm
  • ISB: Asr 3:27pm Maghrib 5:05pm

بیٹا طلاق مت دینا، مارنا چاہو تو مار دینا

شائع April 14, 2017

لاہور میں اظہر نے شازیہ سے پسند کی شادی کی مگر مبینہ طور پر زہر دے کر قتل کردی گئی۔ مقتولہ کے اہل خانہ کا کہنا ہے کہ اظہر اکثر بیوی کو قتل کی دھمکیاں دیتا تھا۔

اِسی طرح کے کئی واقعات ماضی میں بھی پیش آ چکے ہیں جن میں شادی کی پہلی رات ہی تعلیمِ بالغان سے آگہی نہ ہونے کے باعث دلہن کو کنواری نہ جان کر شوہر اپنی بیوی کو قتل کر دیا کرتے ہیں۔

اسی طرح کا انسانیت سوز واقعہ لاہور کے علاقے شفیق آباد میں بھی پیش آیا جہاں ملزم نصیب علی نے تیز دھار آلے سے اپنی اہلیہ کلثوم کو قتل کیا اور فرار ہو گیا۔ ملزم کے والد کا کہنا ہے کہ مقتولہ کا پڑوسیوں کے گھر آنا جانا قتل کی وجہ بنا۔

شوہر کے ہاتھوں بيوی کے قتل کا ایک اور واقعہ جنوبی چھاؤنی کے علاقے ميں پيش آيا، جہاں گھريلو ناچاقی پر شريف نامی شخص نے بيوی پر اتنا تشدد کيا کہ وہ زندہ ہی نہ رہ سکی۔ شوہر کے اہلخانہ بتاتے ہيں کہ مياں بيوی ميں اختلافات معمول کی بات تھی قتل کی رات بھی دونوں ميں جھگڑا ہوا، جس کا انجام بيوی کی موت کی صورت میں نکلا۔

پڑھیے: میرے دیس کی خانزادیاں

ایسے بے شمار واقعات آپ روز خبروں کی زینت بنتے دیکھتے ہوں گے، جن میں میاں بیوی کے درمیان معمولی نوعیت کے گھریلو جھگڑے دونوں کو ایسے بھیانک انجام کی جانب لے جاتے ہیں جہاں تباہی و بربادی کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آتا۔ اپنے اندر انتقام کی آگ کو اس قدر بڑھکا لیتے ہیں کہ بعد میں ساری زندگی اُسی آگ میں جھلستے رہتے ہیں۔ جبکہ قابلِ غور امر یہ ہے کہ ایسے تمام واقعات میں کوئی بھی پیشہ ور مجرم نہیں ہوتا، جرم کا ارتکاب کرنے سے پہلے تک اکثر ملزمان ایک عام شہری کی حیثیت سے اپنی زندگی گزار رہے ہوتے ہیں۔

آخر وہ کیا وجوہات ہیں جو ایک عام آدمی کو جرم کرنے پر مجبور کر دیتی ہیں اور جرم بھی ایسا کہ جس کی گرفت سے دونوں جہاں میں کسی طور پر چھٹکارا ممکن نہیں؟

غور کیا جائے تو اِس کی بہت سی وجوہات سامنے آ سکتی ہیں لیکن میرے نزدیک اِس کی بڑی اور بنیادی وجہ ہمارے معاشرے کے وہ فرسودہ رسوم و رواج ہیں جن سے ہم 21 ویں صدی کے جدید ترقی یافتہ دور میں داخل ہونے کے باوجود چھٹکارہ نہیں پا سکے۔

رشتہ ازدواج میں ہم آہنگی ایک بنیادی عنصر ہے، مگر کیا کیجیے کہ ہم اب بھی خاندانی، کاروباری اور احسان مندی کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے رشتہ داریاں باندھنے کے لیے بے جوڑ افراد کو بھی جبراً رشتہ ازدواج میں باندھ دیتے ہیں۔

صرف یہی نہیں بلکہ شادی چاہے رضامندی یا غیر رضامندی سے ہو رہی ہو، شادی کے وقت بیٹی کو یہ تلقین کی جاتی ہے کہ بیٹا میکے سے تمہاری ڈولی اٹھ رہی ہے سسرال سے تمہارا جنازہ ہی اٹھنا چاہیے۔

دوسری جانب شادی کے وقت لڑکے کے ذہن میں یہ بات بٹھا دی جاتی ہے کہ جسے تم اپنے گھر بیاہ کر لا رہے ہو، اُس پر جو چاہے ظلم کر لینا تمہیں اگر پسند نہ بھی ہو تو بیشک باہر جہاں چاہو منہ مار لینا لیکن اِس سے علیحدگی اختیار کرنے کا سوچنا بھی نہیں، کیوں کہ طلاق رب تعالیٰ کے نزدیک ناپسندیدہ فعل ہے، خاندان میں آج تک کسی کو طلاق نہیں ہوئی جبکہ معاشرے میں ایسے لوگوں کو بالکل اچھا نہیں سمجھا جاتا لہذا تم اِس بات کا خیال بھی نہ کرنا، باقی تمہاری مرضی جو چاہو وہ کرو۔

بس یہی وہ نصیحتیں ہیں جس کو بنیاد بنا کر میکے سے اٹھنے والی ڈولی سسرال سے جنازے کی صورت میں ہی لوٹتی ہے۔ جبکہ شوہرِ نامدار کسی بھی وجہ سے اختلافات کی صورت میں علیحدگی کو دنیا کا سب سے بڑا قبیح فعل سمجھتے ہوئے چھٹکارے کا کوئی راستہ نہ بن پانے پر قتل جیسے سنگین جرم کا ارتکاب کر بیٹھتے ہیں اور خود کو ایسی دلدل میں دھنسا لیتے ہیں جہاں سے واپسی ممکن نہیں ہوتی، یوں ایک وقت میں دو زندگیاں برباد ہو جاتی ہیں۔

مزید پڑھیے: 'غیرت کے نام' پر بیوی کی ناک، بال کاٹ دیے گئے

آپ کے ازدواجی رشتے میں محبت اور ہم آہنگی اگر نہیں بھی ہے اور اختلافات اِس قدر شدت اختیار کر گئے ہیں کہ ساتھ ایک پل بھی رہنا دوبھر ہو گیا ہے تو بجائے اِس کے کہ ساری زندگی ایک دوسرے کے سر پھاڑیں، ایک دوسرے کو کوستے رہیں اور تشدد کی راہ اختیار کرتے ہوئے سنگین جرم کا ارتکاب کر بیٹھیں، بہتر ہے کہ ایک دوسرے سے خیر کے ساتھ اپنی راہیں جدا کر لیجیے۔

اس حوالے سے ایک مشہور کہانی بھی پیش کرتا چلوں کہ، کسی زمانے میں ایک جج صاحب کا ڈرائیور اور ان کی اہلیہ ایک دوسرے کو پسند کرنے لگے، اِس بات کا علم جب جج صاحب کو ہوا تو انہوں نے خاموشی کے ساتھ اپنی اہلیہ سے علیحدگی اختیار کرتے ہوئے اسے ڈرائیور کے ساتھ روانہ کر دیا۔

کچھ عرصے بعد عدالت میں ان کے سامنے قتل کے ایک مجرم کو کٹہرے میں لایا گیا، جج صاحب نے دیکھا کہ کٹہرے میں کھڑا ملزم اُن کا وہی ڈرائیور ہے معلوم کرنے پر پتا چلا کہ ڈرائیور نے اپنی بیوی، جو جج صاحب کی سابقہ اہلیہ تھیں، کو کسی کے ساتھ دیکھ لیا تھا جس پر ڈرائیور نے اپنی بیوی کا موقعے پر ہی قتل کر دیا.

جج صاحب نے تمام ماجرا سننے کے بعد کٹہرے میں کھڑے مجرم سے کہا کہ تم چاہتے تو میری تقلید کر سکتے تھے اور اپنے لیے خیر کا راستہ نکال سکتے تھے لیکن تم نے ایسا نہیں کیا بلکہ ایسے راستے کا انتخاب کیا جو تمہیں موت کے منہ میں لے جانے والا ہے۔

ایسے لوگوں کے لیے میرا یہی مشورہ ہے اگر آپ کی بیوی آپ کے مطابق فرمانبرداری کے تقاضے پوری نہیں کر پاتی اور آپ کی آپس میں ذہنی ہم آہنگی نہیں یا پھر آپ کو ان کے کردار پر شکوک شبہات ہیں تو بیویوں کو اپنی باندی بنانے اُن پر بیہمانہ تشدد کرنے، انہیں ایذا پہنچانے اور قتل کرنے جیسے قبیح جرم کا ارتکاب کرنے سے بہتر ہے کہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے علیحدگی اختیار کرلیں۔

خود بھی اپنی زندگی جیئیں اور دوسروں کو بھی اپنی مرضی کی زندگی جینے دیں، یہ اللہ رب العزت کی جانب سے انسان کے لیے متعین کردہ خیر کا راستہ ہے تا کہ لوگوں کی زندگیوں کو آسان بنایا جاسکے۔

زندگی جینے کا حق عالمی قوانین سے لے کر دستور پاکستان میں درج ہے، مگر کیا ہمارے ہاں ایک عام پاکستانی زندگی کے حق کی اہمیت کا فہم رکھتا ہے؟ آخر ہمارے پاس سماجی تقاضوں کو انسان کے بنیادی حقوق پر فوقیت کیوں دی جاتی ہے؟

شادی ایک خاندانوں کے درمیان بندھن سے زیادہ، دو زندگیوں کا ملاپ ہے جو ایک سماجی معاہدے کے تحت مکمل ہوتا ہے۔ معاہدوں میں کبھی کبھار ایسے موڑ آ جاتے ہیں جہاں سمجھوتوں کے سہارے رشتے کو آگے دھکیلا جاتا ہے مگر جب معاہدوں میں استحصال اور ظلم و تشدد کا عنصر شامل ہو جائے تو معاہدہ توڑنے کے اور کوئی چارہ نہیں رہ جاتا۔

بلاشبہ مذہب اسلام میں طلاق کو ایک ناپسندیدہ عمل کی حیثیت حاصل ہے مگر جب ایک شخص احساس سے عاری صفاتِ حیوانی سے بھرپور ہو تو ایسے شخص کے ساتھ رہنا اپنی ذات کو ایک ٹائم بم کے ساتھ باندھے رکھنے کے برابر ہوگا، تو اللہ کی عطا کردہ قیمتی نعمت، زندگی کو مسلسل موت کے سائے میں رکھنا کیا کسی عظیم گناہ سے کم ہے؟ جو بھی ہو طلاق قتل اور اپنی زندگی حیوان صفت شخص کے ساتھ گزارنے سے بڑا جرم نہیں۔

عمران احمد راجپوت

لکھاری افسانہ نگار اور ناول نگار ہیں۔ اس کے علاوہ فری لانس بلاگر بھی ہیں اور مختلف سماجی مسائل پر لکھنے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

تبصرے (5) بند ہیں

KHAN G Apr 14, 2017 01:46pm
TOTAL AGREE WITH WRITER.....
Bilal Iqbal Apr 14, 2017 04:27pm
Nice article, this is happening in our society because of illiteracy.
عائشہ Apr 14, 2017 06:36pm
تشدد اور دیگر بے سے عوامل کے باوجود عورتوں کے طلاق نہ لینے کی سب سے بڑی وجہ ان کا خالی ہاتھ ہونا ہے ۔ یعنی اکثریت میں یہ صلاحیت ہی موجود نہیں کہ وہ اپنی الگ زندگی گزار سکے ۔ تعلیم اور ہنر کے کمی ، طلاق کی صورت میں ان کو کچھ عرصہ کے بعد اس سے کم درجہ کے شوہر سے شادی کرنی ہوتی ہے ۔ اور اپنے بچوں سے جودائی بھی۔۔۔ اس لئے وہ طلاق کی بجائے ، عمر قید یا سزا موت کو ترجیح دیتی ہیں۔
sajid Apr 14, 2017 08:13pm
رائٹر نے بہت اچھی تحریر لکھی۔ہمارا معاشرہ روز بروز ایسے ماحول کی طرف جاتا دکھائی دے رہا ہے ، اگر رائٹر ان لوگوں کو بھی اپنی تحریر کا حصہ بنا لیتا جو اس بندھن میں بندھنے کے بعد کچھ عرصہ گزار چکے ہیں اور اب ان کی اولادیں بھی ہیں اس حوالے سے بھی لکھنا بہت ضروری تھی
رمضان رفیق Apr 14, 2017 08:41pm
میرے خیال میں طلاق یافتہ کے ساتھ نکاح کا فعل قابل تحسین سمجھا نہیں جا رہا، ویسے بھی ہمارے ہر طرح سے دوسری شادی کو لعنت بنا کر ہی پیش کیا جاتا ہے، جب تک لوگ اس کو جائز اور مناسب خیال نہیں کرتے یونہی عورتیں اور مرد گھٹن بھری زندگی کا انتخاب کرتے رہیں گے

کارٹون

کارٹون : 23 دسمبر 2024
کارٹون : 22 دسمبر 2024