'پاکستانی سیاست میں عزیر بلوچ کا زیادہ ذکر نہیں رہے گا'
اسلام آباد: پاک فوج کی جانب سے کالعدم پیپلز امن کمیٹی کے سربراہ عزیر بلوچ کو آرمی ایکٹ اور آفیشل سیکریٹ ایکٹ 1923 کے تحت تحویل میں لئے جانے کے معاملے پر تجزیہ کار عامر احمد خان نے کہا کہ اس سارے معاملے میں اہم سوال یہ ہے کہ ایک ایسا شخص جسے کراچی میں غنڈا گردی اور اسمگلنگ کے لیے استعمال کیا جاتا تھا اس کے پاس ایسی کیا اہم معلومات آئی کے وہ دوسرے ممالک کے لیے جاسوس بن گیا ؟
ڈان نیوز کے پروگرام نیوز وائز میں گفتگو کرتے ہوئے عامر احمد خان نے کہا کہ 'عزیر بلوچ کی شخصیت میں کوئی شفافیت نہیں نہ وہ جن حالات میں گرفتار ہوئے اس میں کوئی شفافیت ہے اور نہ ہی جن حالات میں ان پر فوجی عدالت میں مقدمہ چلے گا اس میں کوئی شفافیت ہو گی یہ ایک وقتی معاملہ ہے اس کا پاکستان کی سیاست میں زیادہ دیر ذکر نہیں رہے گا'۔
تجزیہ کار کا مزید کہنا تھا کہ اہم بات یہ ہے کہ حکومت کی اس صورتحال میں گرفت کمزور پڑ رہی ہے، پنجاب، سندھ اور خیبر پختونخوا کا بڑا حصہ رینجرز کے ہاتھ میں ہے اور بلوچستان فوجی یا نیم فوجی اداروں کے ماتحت چلتا ہے اس کے ساتھ ساتھ فوجی عدالتیں بھی آگئیں ہیں اور ہمیں ہر اہم چیز کی خبر کسی حکومتی ترجمان کے بجائے فوج سے پتہ چلتی ہے۔
مزید پڑھیں: فوج نے عزیر بلوچ کو تحویل میں لے لیا
عامر احمد خان کا کہنا تھا کہ حکومت سے متعلق زیادہ تر معاملات کا اعلان یا کوئی سیاسی فیصلہ اور وضاحت کسی فوجی ادارے کے بجائے منتخب حکومت کی جانب سے آنی چاہیے لیکن اس وقت تمام اہم اعلانات فوج کے ترجمان کی جانب سے کئے جاتے ہیں جو کہ ایک جمہوری ملک کے لئے تشویش ناک صورت حال ہے اور منتخب حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس صورتحال پر قابو پانے کی کوشش کرے۔
واضح رہے کہ عزیر بلوچ کو لیاری گینگ وار کا مرکزی کردار کہا جاتا ہے اور اس پر کراچی کے علاقے لیاری کے مختلف تھانوں میں قتل، اقدام قتل اور بھتہ خوری سمیت دیگر جرائم کے درجنوں مقدمات درج ہیں۔
عزیر بلوچ 2013 میں حکومت کی جانب سے ٹارگٹ کلرز اور جرائم پیشہ افراد کے خلاف آپریشن شروع ہونے پر بیرون ملک فرار ہوگیا تھا، حکومت سندھ متعدد بار عزیر جان بلوچ کے سر کی قیمت مقرر کر چکی ہے جبکہ عدالت میں پیش نہ ہونے پر اس کے ریڈ وارنٹ بھی جاری ہو چکے ہیں۔
پولیس کو مطلوب عزیر بلوچ کو مسقط سے بذریعہ سڑک جعلی دستاویزات پر دبئی جاتے ہوئے انٹر پول نے 29دسمبر 2014 کو گرفتار کیا تھا۔
عزیر بلوچ کو پاکستان واپس کب لایا گیا، اس حوالے سے اب تک کچھ واضح نہیں ہوسکا۔
تاہم عزیر جان بلوچ کو پراسرار حالات میں جنوری 2016 کو کراچی کے مضافاتی علاقے سے گرفتار کرنے کا دعویٰ کیا گیا تھا، اس پر قائم مقدمات میں حریف گینگسٹر ارشد پپو کا قتل کیس بھی شامل ہے۔
تبصرے (1) بند ہیں