'پہلوانی پاکستان میں اذیت ناک موت مررہی ہے'
میں لاہور کے علاقے شاہ عالم جارہی تھی، اوبر کے ڈرائیور نے مجھ سے اُس مقام کے بارے میں پوچھا جہاں اسے مجھے چھوڑنا تھا۔
' بھائی پہلوان کا ڈیرہ، بانسا والا بازار کے قریب'۔
وہ یہ سن کر چوکنا نظر آنے لگا 'میڈم، وہ خواتین کے جانے کی جگہ نہیں ہے'۔
وہ اس وقت حقیقی معنوں میں فکرمند نظر آرہا تھا جب اس نے مجھے ایک ٹرک کمپنی کے دفتر پر اتارا جو کہ بھائی پہلوان کا ڈیرہ تھا، اور کسی حد تک منفی حوالے سے اس کا تذکرہ ہوتا ہے۔
سب سے پہلے تو آزاد پاکستان گڈز ٹرانسپورٹ کمپنی کے احاطے میں ایک درجن سے زائد کتوں نے بھونکتے ہوئے میرا استقبال کیا (شکر ہے کہ وہ سب بندھے ہوئے تھے) اس کے بعد میری ملاقات ایک لمبے اور بھاری بھرکم شخص سے ہوئی جو کہ عمر کی ساتویں دہائی میں تھا۔
میرے ساتھی نے اس شخص کا تعارف بھائی پہلوان کے طور پر کرایا اور پھر جب بھائی نے بولنا شروع کیا تو ارگرد موجود سب لوگوں نے سننا شروع کردیا۔
سیاسی جلسوں میں ہجوم کھینچ لانے والے شیروں، لڑاکا کتوں اور اکھاڑے کی بناء پر معروف خالد محمود المعروف بھائی پہلوان لاہوری زندگی کی جیتی جاگتی مثال ہیں، جو پہلوانی کے حوالے سے پرجوش ہیں۔
ان کا مسلم ہیلتھ کلب اکھاڑہ نوجوان اور پرانے پہلوانوں کو تربیت کی جگہ فراہم کرتا ہے اور ان کے بقول 'میرے اکھاڑے میں آپ نوے سال کے پہلوانوں کو وہی ورزشیں کرتے ہوئے دیکھ سکتے ہیں جو نوجوان کررہے ہوتے ہیں، ان کا جذبہ قابل ستائش ہے'۔
بھائی پہلوان کے خاندان کا سلسلہ نسب کشمیر میں جاکر ملتا ہے، ان کے دادا نبی بخش پہلوان بھی ایک معروف ریسلر تھے۔
ان کے بقول ' میرا خاندان تین سو برس سے پہلوانی کے حوالے سے متحرک ہے اور اسے فروغ دے رہا ہے، میرے والد، چچا، کزن وغیرہ سب پہلوان تھے، امام بخش پہلوان اور گاما پہلوان بھی میرے خاندان کا حصہ تھے اور ملک کے لیے بڑے اعزازات جیت کر لائے تھے'۔
ماضی میں پہلوان بڑے اسٹارز سمجھے جاتے تھے، ان کے دنگل دیکھنے کے لیے بہت زیادہ ہجوم آتا تھا، 'لوگ مخالفت سے لطف اندوز ہوتے تھے اور یہ حقیقت کہ پہلوان ایک دوسرے کے بہت زیادہ قریب ہوتے ہیں مگر کشتی کے دوران وہ اپنے حریف کو پچھاڑنے کے لیے ہر ممکن کوشش کرتے تھے'۔
1948 میں کراچی میں یونس پہلوان اور بھولو پہلوان کے درمیان رستم پاکستان کی کشتی کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے بتایا 'یہ میچ دو ہفتے تک چلتا رہا، یہ بھولو کی کسی بڑے پہلوان کے خلاف پہلی فتح تھی، اس کے بعد اس نے کبھی پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا'۔
اچانک ہی بھائی نے پوچھا کہ کیا میں دونوں پہلوانوں کے وزن کا اندازہ کرسکتی ہوں، میں نے سر ہلا کر انکار کیا جس پر انہوں نے قہقہہ لگاتے ہوئے کہا 'بھولو کا وزن ساڑھے چار من اور یونس پہلوان کا سات من تھا، مگر اب کسی پہلوان کا وزن 120 کلو ہو تو ہم اسے بہت زیادہ قرار دیتے ہیں'۔
انھوں نے سوال کیا، 'مگر آپ اُس وقت کیا توقع کرسکتے ہیں جب وہ خاندان جن کا کھانا، سانس لینا اور سونا بھی پہلوانی سے جڑا تھا، اس سے دور ہوگئے؟'
ان کا کہنا تھا 'آپ اُس وقت کیا کرسکتے ہیں جب ریاست ہی اس کھیل کی سرپرستی نہ کررہی ہو؟ یہ پہلوانوں کے لیے پیسے کمانے کا ذریعہ نہیں بلکہ یمارے لیے عزت اور فخر کا معاملہ ہے، پہلوانی پاکستان میں اذیت ناک موت مررہی ہے، اکھاڑے دکانوں اور پلازوں میں بدل رہے ہیں، جم بڑھ رہے ہیں جو کہ اسٹیرائیڈ استعمال کرنے والے نوجوان بڑھا رہے ہیں مگر اب پہلوانی باقی نہیں رہی'۔
بھائی پہلوان کا کہنا تھا کہ فٹ اور فعال رہنا بڑے بائیسپس اور ٹرائی سیپس دکھانے سے بہتر ہے، جو کہ اسٹرائیڈز انجیکشنز سے بنائے جاتے ہیں ' میں نے اب تک ایسا پہلوان نہیں دیکھا جو مسلز بنانے کے لیے سپلیمنٹس استعمال کرتا ہو، ہمارے لیے تو یہ خالص کام ہے'۔
یہ کہا جاتا ہے کہ لیجنڈری گاما پہلوان، جو کہ اپنے پورے کیریئر میں ناقابل شکست رہے، 20 لیٹر دودھ، آدھا کلو مکھن، چار کلو پھل، کافی ساری یخنی، پانچ ہزار بیٹھک اور تین ہزار ڈنڈ ان کے روزمرہ کے معمولات میں شامل تھے۔
بھائی پہلوان کے بقول ' پہلوانی ایک مہنگا کھیل ہے، اچھے جینز سے زیادہ آپ کو اچھی غذا، اچھے استاد اور سخت محنت کی ضرورت ہوتی ہے، 1947 کے بعد اگر ہم پاکستان کی کارکردگی کا موازنہ 80 کی دہائی سے بھارت کے ساتھ کریں، تو ہم تنزلی کی جانب گئے جبکہ بھارت نے اس کے لیے تیاری کی اور وہ اولمپک تمغے جیت رہے ہیں'۔
اس کی وجہ کے بارے میں انہوں نے وضاحت کی کہ بھارتی حکومت نے اس بات کو یقینی بنایا کہ باصلاحیت پہلوانوں کو ملازمتیں ملیں 'بچہ جب اچھی پوزیشن لاتا ہے تو اس کو اچھا انعام ملتا ہے، پاکستان میں ایسا کچھ نہیں ہے'۔
'ست پال سنگھ ایک بھارتی پہلوان ہیں جو نوجوان پہلوانوں کو تربیت دیتے ہیں، ان کے طالبعلموں میں انتہائی باصلاحیت دو بار اولمپک میڈل جیتنے والے سشیل کمار بھی شامل ہیں، سشیل کمار کی برانڈز اور دیگر ذرائع سے ہونے والی آمدنی بارہ کروڑ روپے سے تجاوز کرچکی ہے، وہ قومی ہیرو بن چکے ہیں، بھارت کی خواتین ریسلرز بھی کچھ زیادہ پیچھے نہیں، ساکشی ملک کو اولمپکس میں میڈل جیتنے پر ڈھائی کروڑ روپے دیئے گئے'۔
انہوں نے مزید کہا 'بھارت میں روایتی کھیل کے حوالے سے فلم دنگل کے بعد نیا جوش دیکھنے میں آیا ہے، مگر یہاں پاکستان میں کوئی اسپانسر یا حکومتی سرپرستی نہیں، لاہور اور گجرانوالہ جیسے شہر جو کہ برصغیر میں متعدد بہترین پہلوانوں کے گھر تھے، اب پہلوانی کے خاتمے کو دیکھ رہے ہیں'۔
ان کا کہنا تھا کہ ہر نوجوان پہلوان کو اپنی زندگی کے قیمتی سال اس کھیل کو دینے پر کچھ مراعات ملنی چاہئیں، 'آپ کرکٹ کے لیے اسپانسر شپ دیکھ سکتے ہیں مگر روایتی کھیلوں کے لیے نہیں، اس کے باوجود کھیل جدوجہد کررہا ہے اور اب بھی پنجاب میں مقبولیت برقرار رکھے ہوئے ہے جہاں سالانہ چیمپئن شپس کا انعقاد ہوتا ہے اور فاتحین کو نقد انعام دیا جاتا ہے، مگر اب بھی بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے'۔
معروف جھارا پہلوان کے بیٹے عابد ہارون اب تربیت حاصل کررہے ہیں اور انتونیو انوکی کی جانب سے رابطہ کیے جانے کے بعد توقع ہے کہ وہ 2020 کے اولمپکس میں کوالیفائی کرلیں گے۔
پہلوان بھائی کے مطابق یہاں تک کہ اب نوجوان لڑکیوں میں پہلوانی کا شوق بڑھ رہا ہے، جس کی بنیادی وجہ بیروزگاری ہے ' ساہیوال سے تعلق رکھنے والی ایک لڑکی میرے پاس آئی اور کہا کہ وہ کبڈی ٹیم کا حصہ بننا چاہتی ہے، چھ فٹ سے زیادہ لمبی ہونے کی وجہ سے اسے احساس ہوا کہ کبڈی ٹیم میں منتخب ہونا ہی غربت سے باہر نکلنا کا واحد ذریعہ ہے اور اس طرح وہ واپڈا یا آرمی میں ملازمت حاصل کرسکتی ہے'۔
پہلوان کیسے بنتے ہیں؟
بھائی پہلوان نے کہا 'اس سوال کا آسان جواب ہے نظم ضبط اور مشق، آپ میں اچھے جینز ہوسکتے ہیں، لیکن اگر آپ میں صحت بخش غذا اور جسمانی کسرت کو معمول بنانے کے حوالے سے ضروری نظم و ضبط نہ ہو تو آپ بہت زیادہ نہیں کرسکتے، ہزاروں بیٹھک اور ڈنڈ وغیرہ سخت محنت کا کام ہے'۔
انہوں نے اس نکتے کی جانب توجہ دلائی کہ جب نوجوان کسی اکھاڑے کا حصہ بنتے ہیں تو یہ تصور کیا جاتا ہے کہ انہیں عشاء کی نماز کے بعد سونا اور فجر سے قبل اٹھنا ہوتا ہے 'انہیں نمازوں کا کہا جاتا ہے جس کے بعد گھنٹوں کسرت کی جاتی ہے، وہ دن میں دو بار نہاتے ہیں۔ یہ کوئی آسان زندگی نہیں اور اس میں کوئی پروٹین شیک نہیں ہوتا، آپ کو اپنے مسلز دودھ پی کر اور انڈوں کی کچی سفید کھا کر بنانے ہوتے ہیں'۔
انہوں نے مزید کہا 'آپ کی غذا ہی جسم کو بناتی یا بگاڑتی ہے، بیشتر افراد کا خیال ہے کہ پہلوان بہت زیادہ کھاتے ہیں جو کہ درست نہیں، یہ لڑکے بلا سوچے سمجھے نہیں کھاتے، دودھ جسم کو بنانے میں مدد دینے والا بنیادی جز ہے، جسے دیگر مصنوعات جیسے دہی، کھویا، چھاج اور پنیر وغیرہ بنانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے، جو پہلوان کھاتے ہیں'۔
اسی طرح انڈوں کی سفیدی بھی مسلز کے لیے اہم جز ہے۔
انہوں نے وضاحت کی ' ایک بچے کو زندہ رہنے کے لیے دودھ کی ضرورت ہوتی ہے، اس طرح قدرت نے ہمیں بنایا ہے، مگر ہم اچھی غذا استعمال نہیں کرتے، ہم ایسی قوم ہیں جو دودھ، پھل اور سبزیوں کی کمی کا شکار ہے، آج کی مائیں ٹیلیویژن پر ڈرامے دیکھنے میں مصروف رہتی ہیں، باپ اپنے فون پر مگن رہتے ہیں، ان والدین کو اس بات کی سب سے کم پروا ہوتی ہے کہ بچہ کیا کررہا ہے۔ انہیں مہنگے کھلونے اور فون دینا پرورش نہیں، آج کی نسل فرائیڈ چکن، برگر اور چپس کھا کر پل رہی ہے، وہ کمپیوٹرز اور اسمارٹ فونز کی لت کا شکار ہیں، ان میں توجہ مرکوز کرنے کی صلاحیت کم ہے، ورزش کسی کی شخصیت کو سنوارنے کا اہم ذریعہ ہے، پہلوانی بہتر صحت کے لیے ایک طرز زندگی ہے، ہمارے بزرگ کہا کرتے تھے کہ یہ کسی فرد کی جسامت میں وقار کا اضافہ کرتی ہے، یقیناً ہر ایک پہلوان نہیں بن سکتا مگر سب کو کم از کم اپنا خیال رکھنے کی کوشش تو کرنی چاہیئے'۔
سیاسی تعلق
وزیراعظم نواز شریف کے سیاسی کیرئیر میں پہلوانوں کے اہم کردار کے بارے میں بات کرتے ہوئے بھائی پہلوان نے کہا 'کلثوم نواز شریف گاما پہلوان کی نواسی ہیں'۔
ان کا کہنا تھا 'مجھے بتائیں، کون میاں صاحب کو جانتا تھا؟ وہ اپنے اسکوٹر پر گھومتے تھے، لاہور اور لاہوریوں سے ان کا تعارف عظیم گاما پہلوان کے رشتے دار کی حیثیت سے کرایا گیا۔ جب میاں صاحب یہاں آئے تو بھولو، اکی، سب نے ان کو سپورٹ کیا، "یہ نواز ہے، اسے الیکشن میں کھڑا کرنا ہے"، میاں صاحب نے کبھی بھی پہلوانوں کا مناسب شکریہ ادا نہیں کیا'۔
یہ حقیقت ہے کہ جب پہلوانوں نے نواز شریف کے لیے گھر گھر جاکر مہم چلائی تو ہجوم اکھٹا ہوا۔ جب بھولو پہلوان نے نواز شریف کی حمایت میں بات کی تو مقامی افراد نے سنی 'نواز شریف نے یہ کارڈ برسوں تک استعمال کیا اور ووٹ حاصل کیے'۔
پہلوانوں کی تاریخ بیان کرتے ہوئے بھائی پہلوان کا خیال تھا کہ شریف برادران کو اس کھیل کی بحالی نو کے لیے کردار ادا کرنا چاہیئے۔
یہ مضمون 2 اپریل 2017 کو ڈان EON میگزین میں شائع ہوا۔