نادرا کو کوہستانی لڑکیوں کی شناخت کی ہدایت
اسلام آباد: سپریم کورٹ آف پاکستان نے نیشنل ڈیٹا اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی (نادرا) کو حکم دیا ہے کہ وہ کوہستان ویڈیو اسکینڈل 2010 میں شامل پانچوں لڑکیوں کے ریکارڈ کی تصدیق کرنے کیلئے ایک ٹیم تشکیل دیں، اگر وہ کمپیوٹرائز شناختی کارڈ کی حامل ہیں۔
سپریم کورٹ کا تین رکنی بینچ جسٹس اعجاز افضال خان کی سربراہی میں ان لڑکیاں کو عدالت میں پیش کرنے کا حکم دینے والا تھا، لیکن اس بات کو مد نظر رکھتے ہوئے فیصلہ نہیں دیا گیا کہ اگر انھیں عدالت میں پیش بھی کردیا جائے تو کوئی بھی انھیں درست طریقے سے شناخت نہیں کرپائے گا۔
عدالت ایک سماجی رضاکار اور تدریس کے شعبے سے وابستہ ڈاکٹر فرزانہ باری کی جانب سے جمع کرائی گئی درخواست پر سماعت کررہی تھی، وہ قائد اعظم یونیورسٹی میں جینڈر اسٹڈیز ڈپارٹمنٹ کی سربراہ ہیں۔
اس سے قبل ڈاکٹر فرزانہ باری اس 3 رکنی کمیشن کا حصہ تھیں جس نے 2012 میں کوہستان کا دورہ کیا تھا اس دورے کا مقصد مبینہ طور پر ایک ویڈیو میں دیکھی جانے والی لڑکیوں کے قتل کی انکوئری کرنا تھا۔
اس کمیشن کی سربراہی ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج منیرا عباسی کررہی تھیں جس میں رکن قومی اسمبلی بشرا گوہر بھی شامل تھیں۔
اپنے حالیہ بیان میں ڈاکٹر فرزانہ باری کا کہنا تھا کہ کمشین کے سامنے پیش کی جانے والی لڑکیوں کو بند کمرے میں پیش کرنے کی ہدایت کی جائے اور ان کی شناخت کی تحقیقات کیلئے ماہرین کو طلب کیا جائے۔
یاد رہے کہ مذکورہ واقعہ کا اس وقت کے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے از خود نوٹس لیا تھا۔
یہ الزام لگایا گیا تھا کہ ایک شادی کی تقریب میں لڑکوں کے ساتھ ناچنے والی 5 لڑکیوں کو کوہستان میں قبائلی جرگے کے حکم پر قتل کردیا گیا تھا۔
جن لڑکیوں کی شناخت پر سوال اٹھایا گیا تھا ان میں امینہ، بیگم جان، سرن جان، بازیگا اور شاہین شامل تھیں جن میں سے سرن جان اور بازیگا کے ریکارڈ نادرا کی جانب سے تصدیق کرلیے گئے تھے۔
جسٹس مقبول باقر نے نشاندہی کی تھی کہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ دونوں لڑکیاں شادی شدہ معلوم نہیں ہوتی اور نہ ہی ان کے شوہر ہی کمیشن کے سامنے پیش ہوتے تھے۔
مقامی علاقے کی نمائندگی کرنے والے ایڈووکیٹ غلام مصطفیٰ سواتی نے اس یقین کی مخالفت کی تھی کہ لڑکیاں قتل کی جاچکی ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ گذشتہ 4 سال میں ڈاکٹر فرزانہ باری کے دعوے کی تصدیق کیلئے ایک بھی ثبوت پیش نہیں کیا گیا۔
10 نومبر 2016 کو سپریم کورٹ نے لڑکیوں کے قتل کی تحقیقات کیلئے کوہستان کے ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج کو مقامی ضلعی پولیس افسر اور ایک سینئر خاتون پولیس افسر کے ساتھ ضلع کوہستان کے گاؤں پالاس کا دورہ کرنے کا حکم دیا تھا۔
بعد ازاں یکم دسمبر 2016 کو کوہستان کے ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج سہیل خان نے اپنی ایک رپورٹ میں اس خدشے کا اظہار کیا تھا کہ شاید 2010 کے ویڈیو اسکینڈل میں نظر آنے والی پانچوں لڑکیاں زندہ نہیں ہیں۔
تاہم اس کیس کی گذشتہ روز ہونے والی سماعت کے دوران جسٹس اعجاز افضال خان نے رپورٹ کو بناوٹی قرار دیتے ہوئے کہا کہ اگر لڑکیاں پیش ہو کر خود کی شناخت کردیں تو تمام تنازع حل ہوجائے گا۔
عدالت نے مقامی افراد کی جانب سے لڑکیوں کو عدالت میں پیش کرنے میں ہچکچانے پر مایوسی کا اظہار کیا۔
اس موقع پر ڈاکٹر فرزانہ باری نے افسوس کا اظہار کیا کہ کوئی ایک این جی او بھی ان کے موقف کی حمایت نہیں کررہی، ان کا مزید کہنا تھا کہ انھیں اور اس اسکینڈل کو بے نقاب کرنے والی افضال کوہستانی کو دھمکیاں دی جارہی ہیں۔
عدالت نے کیس کی سماعت 20 اپریل تک کیلئے ملتوی کرتے ہوئے کہا کہ لڑکیوں کو پیش کیے بغیر اس فیصلے تک نہیں پہنچا جاسکتا کہ وہ زندہ ہیں یا انھیں قتل کیا جاچکا ہے۔