یو اے ای میں ٹرمپ-پیوٹن معاونین کی خفیہ ملاقات کا انکشاف
متحدہ عرب امارات کی جانب سے روس اور امریکا کے نئے صدرکو قریب لانے کے لیے رواں سال جنوری میں ٹرمپ کے حمایت یافتہ ایک امریکی کاروباری شخصیت اور روسی صدر پیوٹن کے قریب روسی شخص کے درمیان خفیہ بات چیت کے لیے مبینہ انتظام کرنے کا انکشاف ہوا ہے۔
واشنگٹن پوسٹ نے امریکی اور عرب ذرائع سے یہ رپورٹ دی ہے کہ متحدہ عرب امارات نے مبینہ طور پر ایک اجلاس کی میزبانی کی ہامی بھری تھی جہاں روس، شام سمیت ایران سے اپنے تعلقات کو ممکنہ طور پر کم کرنے کے لیے راضی تھا جبکہ ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے ماسکو کے لیے امریکی پابندیوں پر بڑی مراعات دیے کا امکان تھا۔
اخبار کا کہنا ہے اجلاس کے مقاصد مکمل طور پر غیر واضح ہیں۔
دونوں ممالک کے نمائندوں کے درمیان ملاقات مبینہ طور پر ٹرمپ کی جانب سے صدارتی عہدہ سنبھالنے سے نودن قبل ہوئی جس میں مشہور کاروباری شخصیت ایرک پرنس بھی ملوث تھے۔
خیال رہے کہ پرنس سیکیورٹی کمپنی بلیک واٹر کے بانی ہیں اور اب ہانگ کانگ کی کمپنی فرنٹیئر سروسز گروپ کے سربراہ ہیں، ان کے تعلقات ٹرمپ کے چیف اسٹریٹجسٹ اسٹیو بینن سے ہیں اور سیکرٹری تعلیم بیسٹے ڈیووس کے بھائی ہیں۔
ادھر امریکی عہدیداروں نے دعویٰ کیا ہے کہ ایف بی آئی 2016 میں منعقدہ امریکا کے انتخابات میں روسی مداخلت کے ساتھ ساتھ بحر ہند کے جزیروں میں ہونے والی ملاقات اور مبینہ طور پر پیوٹن اور ٹرمپ کے معاونین کے درمیان رابطے کا جائزہ لے رہی ہے۔
تاہم اخبار کا کہنا ہے کہ ایف بی آئی اس پر موقف دینے سے گریز کر رہی ہے۔
اخبار نے عہدیداروں کے حوالے سے دعویٰ کیا ہے کہ پیوٹن کے معتبر ساتھی سے ملاقات کے وقت اماراتی شہزادے نے خود کو منتخب صدر کےغیرسرکاری پیغام رساں کے طور پر متعار کروایا جبکہ عہدیداران روسی نمائندے کی شناخت نہ کرپائے۔
اطلاعات کے مطابق شہزادے اور ان کے اہل خانہ نے انتخابی مہم میں ایک کروڑ ڈالر سے زیادہ رقم فراہم کی تھی جبکہ وہ باراک اوباما اور ٹرمپ کی مخالف امیدوار ہیلری کلنٹن دونوں کے ناقد تھے۔
واشنگٹن پوسٹ کی رپورٹ کے بعد وائٹ ہاؤس کے سیکرٹری سین اسپیسر کا کہنا تھا کہ 'ہمیں کسی ملاقات کے بارے میں خبر نہیں ہے اور شہزادے کے ترجمان نے اجلاس میں کہا کہ 'صدر ٹرمپ سے کوئی لینا دینا نہیں ہے'۔
ٹرمپ کی مہم کے مشیر کی روسی اہلکار سے ملاقات
عدالت کے ریکارڈ کے مطابق ڈونلڈ ٹرمپ کی انتخابی مہم کے خارجہ پالیسی کے مشیر نے 2013 میں روسی انٹیلی جنس کے اہلکار سے ملاقات کی اور انھیں توانائی کی صنعت کے حوالے سے کاغذات فراہم کیے۔
روسی اہلکار وکٹر پوڈبنی ان تین افراد میں شامل تھے جنھیں سردجنگ کے طرز پر جاسوسی کے الزام پر جرمانہ کیا گیا تھا۔
عدالتی کاغذات کے مطابق پوڈبنی نے توانائی کے کنسلٹنٹ کارٹر پیچ کو تربیت دینے کی کوشش کی تھی۔
کارٹر پیج نے ٹرمپ کی مہم میں خارجہ پالیسی پر اہم خدمات انجام دیں گوکہ وہ انتخابات سے قبل ہی مہم سے الگ ہوگئے تھے اور وائٹ ہاؤس کا کہنا ہے کہ صدر کا ان سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔
وہ ٹرمپ کے ان معاونین میں بھی شامل تھے جو ایف بی آئی کے زیر تفتیش رہے تھے اور کانگریس کی جانب سے انتخابات میں روس کی مداخلت کے حوالے سے کام کرنے والی کمیٹی کے سامنے بھی پیش ہوئے۔
کارٹر پیج نے اپنے بیان مین اعتراف کیا کہ انھوں نے 'غیراہم اور عام طور پر دستیاب تحقیقی مواد فراہم کیا تھا'۔
دوسری جانب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ انتخابات کے دوران ان کے یا ان معاونین کی جانب سے روس سے رابطے کو سختی مسترد کرچکے ہیں۔
انھوں نے اس کو ان کے روس کے ساتھ ممکنہ تعلقات کے حوالے سے ایک 'چال' قرار دیا اور اس بات پر زور دیا کہ اصل کہانی اوباما انتظامیہ کی جانب سے ان کے خلاف اور ان کے معاونین کے خلاف میڈیا کو معلومات پہنچانا، الزامات لگانا اور نطر رکھنا ہے۔
ٹرمپ نے اپنے ٹویٹ میں کہا کہ 'اصل کہانی نگرانی اور راز افشا کرنا ہے! راز افشا کرنے والے کو ڈھونڈیے'۔
کارٹر کے پوڈوبنی سے تعلقات انھیں ٹرمپ کی مہم کے خارجہ پالیسی کے مشیر مقرر کرنے سے تین سال قبل تھے جبکہ ٹرمپ اور اس کے مشیران غیرواضح تھے کیسے وہ مہم سے منسلک ہوئے۔
عدالت کے کاغذات میں پوڈوبنی کے ایگور اسپورشیوف کے ساتھ تحریری گفتگو بھی شامل ہے جنھیں جاسوسی پر سزا ہوئی تھی۔