اورنج لائن منصوبے پر اعتراض، سپریم کورٹ روزانہ سماعت کرے گی
اسلام آباد: سپریم کورٹ آف پاکستان نے لاہور اورنج لائن میٹرو ٹرین منصوبے کے خلاف کیس روزانہ کی بنیادوں پر سننے کا فیصلہ کرلیا۔
جسٹس اعجاز افضل کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 5 رکنی بینچ نے لاہور ہائیکورٹ کی جانب سے اورنج لائن ٹرین منصوبہ 4 مقامات پر روکنے کے حکم کے خلاف پنجاب حکومت کی اپیل کی سماعت کی۔
سماعت کے دوران جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا کہ ترقیاتی منصوبے بننے چاہیں لیکن قانون کی خلاف ورزی اور آثار قدیمہ کو نقصان پہنچانے کی اجازت نہیں دیں گے۔
منصوبے کی فزیبلٹی رپورٹ تیار کرنے والے نیشنل انجینئرنگ سروسز پاکستان (نیسپاک) کے وکیل شاہد حامد نے اپنے دلائل میں کہا کہ ماہرین کی رپورٹ کے مطابق تاریخی عمارتوں سے پانچ سے چھ کلو میٹر کے فاصلے پر ٹرین چلانے سے کوئی نقصان نہیں ہوگا۔
یہ بھی پڑھیں: اورنج لائن ٹرین منصوبے کی زد میں 11 ثقافتی ورثے
انہوں نے کہا کہ اگر نقصان پہنچا تو ٹرین روک دیں گے، منصوبے کا این او سی محکمہ آثار قدیمہ سے حاصل کیا گیا ہے۔
جس پر جسٹس شیخ عظمت سعید نے ریمارکس دیے کہ آثار قدیمہ کے پہلے ڈائریکٹر کو ہٹاکر دوسرے ڈائریکٹر سے این او سی لیا گیا، میٹرو منصوبے کے ڈیزائن میں تبدیلی کا واضح موقف اختیار نہیں کیا گیا۔
شاہد حامد نے کہا کہ منصوبے کی تبدیلی شاید ممکن ہو لیکن اس سے منصوبے کی لاگت بڑھ جائے گی۔
جسٹس اعجازالحسن نے استفسار کیا کہ کیا موجودہ ڈیزائن میں سڑک پر چلتا شخص چوبرچی کو دیکھ سکے گا؟
اس پر شاہد حامد نے بتایا کہ ٹریک کے پلرز کے درمیان سے چوبرجی کا نظارہ کیا جاسکے گا، جس پر جسٹس شیخ عظمت سعید بولے کہ یہ تو بندر کا پنجرے سے دیکھنے کے مترادف ہوگا۔
سماعت کے دوران ماس ٹرانزٹ اتھارٹی کے ایم ڈی نے کہا کہ ڈیزائن میں تبدیلی کیلئے سیفٹی کو بھی مدنظر رکھنا ہوگا، جس پر جسٹس شیخ عظمت نے کہا کہ سارا کام اکھاڑ کر دوبارہ کرنے کا حکم نہیں دے سکتے۔
مزید پڑھیں: اورنج ٹرین منصوبہ: کیا سپریم کورٹ تاریخی ورثہ بچائے گی؟
نیسپاک کے وکیل شاہد حامد نے کہاکہ لاہور اورنج ٹرین پاکستان میں اپنی طرز کا پہلا منصوبہ ہے، دنیا کے پچپن ممالک کے 148شہروں میں زیرزمین ٹرین چلتی ہے، انڈیا کے تقریبا تمام بڑے شہروں میں میٹرو ٹرین چلتی ہے، دنیا کے بڑے شہروں میں سے لاہور اور کراچی ہی ہیں جہاں میٹروٹرین نہیں۔
وکیل شاہد حامد نے کہاکہ لاہور ٹرین منصوبہ 2007میں تیار کیا گیا تھا، اسی روٹ پر ہم نے کام کیاہے، کل 27 کلومیٹر راستہ ہے،تاہم پہلے اس کا زیرزمین حصہ سات کلومیٹر تھا جس کو نئے منصوبے میں ڈیڑھ کلومیٹر کیا گیاہے۔
وکیل نے کہاکہ 2007میں اس کی لاگت کا اندازہ دو ارب ڈالر تھا اور زمین کی خریداری الگ تھی، زیرزمین تعمیر معلق تعمیر کے مقابلے میں تین سے چار گنا مہنگی ہوتی ہے،ہمارے منصوبے پرایک ارب باسٹھ کروڑ ڈالر لاگت آئے گی، اس طرح کل لاگت پاکستانی روپے میں 165ارب روپے آئے گی جس میں سے 64ارب روپے سول ورکس پر لگیں گے، اس میں زمین خریداری کی رقم شامل نہیں ہے۔
عدالت کے پوچھنے پر وکیل نے بتایا کہ ابتدائی طورپر منصوبے سے متعلق عام لوگوں کی تجاویز و شکایات کو جاننے کیلئے الحمرا ہال میں عوامی سماعت رکھی گئی، عدالت میں آنے والوں نے اس وقت کوئی اعتراض نہیں کیاتھا، منصوبے کے خلاف ہائیکورٹ میں پہلی رٹ 17 دسمبر 2015 کو دائر کی گئی۔
جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ عدالت میں یہ معاملہ نہیں کہ ملک کے دوبڑے شہروں میں ماس ٹرانزٹ ٹرانسپورٹ کا نظام نہیں، کسی کو یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ اورنج ٹرین پسند نہیں تو گاﺅں چلا جائے، اسی طرح حکومت کو ایسا منصوبہ بنانے سے بھی نہیں روک سکتے، معاملہ تاریخی عمارت کو خطرے کاہے۔
یہ بھی پڑھیں: مغل شہنشاہ جلال الدین اکبر اور اورنج لائن منصوبہ؟
جسٹس عظمت نے کہاکہ معاملہ اس قانون کا نہیں کہ تاریخی عمارتوں کے دوسوفٹ تک کھدائی نہیں کی جاسکتی ، اگر دوسوفٹ دوری کے منصوبے سے بھی شالیمار باغ کے قومی ورثے کو نقصان پہنچتاہے تو اس کی اجازت نہیں دی جاسکتی، اسی طرح ممکن ہے کہ 190 فٹ کے فاصلے سے گزرنے پر بھی عمارتوں کو نقصان نہ پہنچے تو اجازت دی جاسکتی ہے۔
وکیل شاہد حامد نے کہا کہ دوسوفٹ دوری کے قانون کی سمجھ نہیں آتی، دنیا میں کہیں بھی ایسا قانون نہیں ہے، منصوبے سے تاریخی عمارتوں کو نقصان نہیں ہوگا۔
جسٹس عظمت سعید نے کہاکہ ایسی بات نہ کریں کہ نقصان نہیں ہوگا، جسٹس مقبول باقر نے کہا کہ کچھ تاریخی عمارتوں میں دراڑیں پڑی ہیں تاہم یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ یہ کب اور کیسے پڑیں۔
جسٹس اعجازالاحسن نے پوچھا کہ کیا ایسا کوئی واقعہ رپورٹ ہوا کہ کام کے دوران کسی تاریخی عمارت کو نقصان پہنچا ہو؟
وکیل نے کہاکہ تعمیراتی ماہرین کی رپورٹیں موجود ہیں، ابھی تک ایسا کچھ نہیں ہوا،مسئلہ یہ ہے کہ بس کا راستہ تو تبدیل کیاجاسکتاہے لیکن میٹروٹرین کے روٹ کو تبدیل کرنا ممکن نہیں ہوتا، ماہرین کہتے ہیں کہ تاریخی ورثے کو نقصان نہیں ہوگا۔
جسٹس عظمت سعید نے کہاکہ بھارت میں ہائی کورٹ نے ایسے ماہرین اور اداروں کی رپورٹوں کو قابل اعتماد قراردیا،بدقسمتی سے پاکستان میں کسی ادارے پر اعتماد نہیں کیاجاتا، عدلیہ پر بھی نہیں، یہاں اگر فرشتے بھی آجائیں تو درخواست گزار نہیں مانیں گے۔
وکیل نے بتایاکہ منصوبے سے کل 3800 افراد متاثر ہوئے جبکہ ایک ہزار کنال زمین خریدی گئی۔
جسٹس عظمت سعید نے کہاکہ تاریخی عمارتوں کے نقصان کے علاوہ دوسرا پہلو بھی مدنظر رکھنا ہوگا کہ یہ عمارتیں اورنج ٹرین گزرگاہ کی وجہ سے عام لوگوں کی نظروں سے اوجھل نہ ہوجائیں۔
وکیل نے کہا کہ اورنج ٹرین سے تاریخی عمارتوں کا نظارہ شاندارہوگا جس پر جسٹس اعجازالاحسن نے پوچھا کہ جو لوگ سڑک سے گزریں گے ان کیلئے نظارہ کیسے ہوگا؟
مزید پڑھیں: زندگی کی ٹرین اور لاہور کا قرض
جسٹس عظمت سعید نے کہاکہ جو لوگ اپنی تاریخ کی حفاظت نہیں کرتے ان کا کوئی مستقبل نہیں ہوتا، مستقبل انہی اقوام کا ہوتاہے جن کی تاریخ محفوظ ہو۔
جسٹس عظمت نے کہاکہ قانون کی خلاف ورزی نہیں ہوناچاہیے، کسی تاریخی عمارت کو متاثر ہونے دیں گے اور نہ ہی ان کے نظارے کو متاثر ہونے دیاجائے گا۔
عدالتی وقت ختم اور وکیل شاہد حامد کے دلائل مکمل ہونے پر درخواست گزار کے وکیل نے کھڑے ہوکر کہاکہ اقوام متحدہ کے ادارے یونیسکو کے ماہرین عالمی ورثے کو ٹرین منصوبے سے پہنچنے والے نقصان کاجائزہ لینے آنا چاہتے ہیں لیکن حکومت ان کو ویزا نہیں دے رہی۔
جسٹس اعجازافضل نے کہا کہ وقت آنے پر اس معاملے کو بھی دیکھیںگے، مقدمہ کی روزانہ کی بنیاد پر سماعت کریں گے۔
عدالت نے اپیل روزانہ کی بنیاد پر سننے کا فیصلہ کرتے ہوئے سماعت منگل تک ملتوی کردی۔