• KHI: Asr 4:13pm Maghrib 5:49pm
  • LHR: Asr 3:27pm Maghrib 5:05pm
  • ISB: Asr 3:27pm Maghrib 5:05pm
  • KHI: Asr 4:13pm Maghrib 5:49pm
  • LHR: Asr 3:27pm Maghrib 5:05pm
  • ISB: Asr 3:27pm Maghrib 5:05pm

سانحہ سرگودھا: ’قتل کا واقعہ خالصتاً ذاتی دشمنی پر مبنی تھا‘

شائع April 3, 2017

سرگودھا: پنجاب حکومت کے ترجمان اور صوبائی وزیر برائے اوقاف زعیم قادری نے دعویٰ کیا ہے کہ سرگودھا کی درگاہ میں 20 افراد کے قتل کا واقعہ خالصتاً ذاتی دشمنی پر مبنی تھا۔

زعیم قادری نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ واقعے کی انکوائری رپورٹ وزیراعلیٰ شہباز شریف کو روانہ کی جاچکی ہے۔

انھوں نے بتایا کہ رپورٹ کے مطابق درگاہ پر 2 لوگ اپنا قبضہ جمائے رکھنا چاہتے تھے، جبکہ متولی نے نہ صرف جانشین بلکہ معاملے نمٹانے کے لیے آنے والے دیگر افراد کو بھی قتل کردیا۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ پنجاب حکومت نے سرگودھا کی مذکورہ درگاہ کو محکمہ اوقاف کے حوالے کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے اور اس درگاہ کے علاوہ علاقے کی دیگر درگاہوں اور مزارات کو بھی محکمہ اوقاف کے حوالے کردیا جائے گا۔

واقعے کا مقدمہ درج

سرگودھا میں درگاہ کے متولی کے ہاتھوں 3 خواتین سمیت 20 افراد کے بہیمانہ قتل کا مقدمہ ریاست کی مدعیت میں متولی عبدالوحید اور ان کے دو ساتھیوں کے خلاف درج کرلیا گیا۔

پاکستان پینل کوڈ کے دفعات 302، 353، 354، 156 اور انسداد دہشت گردی ایکٹ کی دفعہ 7 کے تحت درج کی گئی ایف آئی آر میں وحید اور اس مکروہ فعل میں سہولت فراہم کرنے والے اس کے دونوں ساتھیوں کو شامل کیا گیا۔

خیال رہے کہ صوبہ پنجاب کے ضلع سرگودھا سے 17 کلومیٹر فاصلے پر چک 95 شمالی میں گذشتہ دنوں رونما ہونے والے خوفناک واقعے میں درگاہ علی محمد قلندر کے متولی نے اپنے دو ساتھیوں کے ہمراہ لاٹھیوں اور چاقوؤں کے وار سے 20 افراد کو موت کے گھاٹ اتار دیا تھا۔

واقعہ کی اطلاع ملتے ہی پولیس کی بھاری نفری درگارہ پہنچی اور درگاہ کے متولی عبدالوحید کو اس کے 4 ساتھیوں سمیت گرفتار جبکہ 19 افراد کی لاشیں برآمد کرکے انھیں اور چند زخمیوں کو ڈی ایچ کیو ہسپتال منتقل کردیا گیا تھا۔

واضح رہے کہ عبدالوحید چند سال پہلے ریٹائرمنٹ لینے سے قبل الیکشن کمیشن آف پاکستان میں اہم عہدے پر ملازم تھا۔

متولی کے ہاتھوں قتل ہونے والے افراد کی عمریں 30 سے 40 سال کے درمیان تھیں جبکہ ان میں بزنس گریجویٹ، پولیس اہلکار اور سابق ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ کا بیٹا بھی شامل تھا۔

’میرے آس پاس مردہ لوگ موجود تھے‘

واقعے کے عینی شاہدین کے مطابق مقتولین عبدالوحید کے سامنے اپنے ’گناہوں سے خلاصی‘ کے لیے پیش ہوئے تھے اور عبدالوحید نے انہیں بری طرح مار پیٹ کا نشانہ بنا کر ’گناہوں سے صاف کیا‘۔

ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹرز ہسپتال سرگودھا میں زیر علاج محمد توقیر نے ڈان سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ’اپنے پیر کے بلانے پر جمعے کی نماز کے بعد میں نے درگاہ کا رخ کیا، جمعے کی شام عبدالوحید نے اپنے مریدوں کو گناہوں سے چھٹکارا دلانے کا سلسلہ شروع کیا‘۔

محمد توقیر کے مطابق ’میں اس عمل سے گزرنے والا پہلا شخص تھا، مجھے عبدالوحید نے کپڑے اتارنے کا حکم دیا اور اس کے بعد لاٹھی کے وار شروع کردیئے، سر پر لاٹھی کے مسلسل وار سہنے کے بعد میں بے ہوش ہوگیا، جس کے بعد مجھے ہفتے کی صبح ہوش آیا، میرے آس پاس مردہ لوگ موجود تھے‘۔

متاثرہ شخص نے مزید بتایا کہ ہلنے جلنے کی ہمت نہ ہونے کی وجہ سے وہ وہیں لیٹا رہا جبکہ اتوار کے روز پولیس نے آکر اسے ہسپتال منتقل کیا۔

توقیر اُن چار زخمیوں میں سے ایک ہے جو متولی کے تشدد سے گزرنے کے بعد زندہ بچ جانے میں کامیاب رہے، ان ہی چار افراد میں سے ایک شخص نے وہاں سے بھاگ کر پولیس کو سارے معاملے کی اطلاع دی۔

’مریدین پیر کے حکم پر رو رہے ہیں‘

ایک اور عینی شاہد محمد اسلم نے ڈان کو بتایا کہ ہفتے کی شام وہ درگاہ کے نزدیک موجود تھا جب اس نے لوگوں کو درد سے کراہتے سنا۔

محمد اسلم کے مطابق اس نے درگاہ میں داخل ہونے کی کوشش کی تاہم دروازے پر موجود دو افراد نے اسے روکتے ہوئے کہا کہ ’مریدین پیر کے حکم پر رو رہے ہیں‘۔

’متاثرین کے اہل خانہ مقدمہ درج کرانے کو تیار نہیں‘

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق علاقہ پولیس افسر ذوالفقار حمید کا کہنا تھا کہ متاثرین کے اہلخانہ میں سے کوئی بھی عبد الوحید کے خلاف مقدمہ درج کرانے کو تیار نہیں تھا۔

دوسری جانب عبدالوحید کا پولیس کے سامنے اپنے اعترافی بیان میں کہنا تھا کہ اس نے کوئی جرم نہیں کیا۔

ڈی ایس پی عباس کا کہنا تھا کہ متولی کے مطابق 'اس نے اپنے مریدین کو گناہوں سے پاک کرکے جنت بھیجا ہے'۔

ڈان سے گفتگو میں ڈی ایس پی کا مزید کہنا تھا کہ گرفتاری پر عبدالوحید بضد تھا کہ اس کے مریدوں نے گناہوں سے پاک کرنے کی درخواست کرتے ہوئے انہیں نئی زندگی دینے کا مطالبہ کیا تھا۔

’سارا واقعہ پولیس کے علم میں تھا‘

ممکنہ طور پر درگاہ کے اگلے سجادہ نشین نعیم شاہ کے بھائی عباس شاہ واقعے کا مقدمہ درج کرانے سامنے آئے۔

ان کا کہنا تھا کہ ابتدائی معلومات کے مطابق وحید کو ڈر تھا کہ اس کا عہدہ خطرے میں ہے، لہذا اس نے تمام افراد کو مار ڈالا۔

عباس شاہ کا مزید کہنا تھا کہ عبدالوحید اپنے چند ساتھیوں کے ہمراہ درگاہ کے احاطے میں نشہ کرتا تھا اور یہ تمام واقعہ پولیس کی سرپرستی میں ہوا۔

عباس شاہ کے مطابق متولی عبدالوحید نے اصل روحانی پیشوا محمد علی کے بیٹے آصف کو بھی مار ڈالا جو ان کے انتقال کے بعد سجادہ نشینی کا اہل تھا۔

’چار افراد کا قتل جمعے کے روز کیا گیا‘

سرگودھا کے اسسٹنٹ کمشنر ریٹائرڈ کیپٹن سعید لغاری نے ڈان کو بتایا کہ وحید نے 4 افراد کا قتل جمعے کو کیا اور ان کی لاشیں گھر کے پچھلے حصے میں چھپادیں، دیگر 16 افراد کو ہفتے کی شام قتل کیا گیا۔

کیپٹن سعید لغاری کے مطابق متاثرین کے اہل خانہ کی جانب سے عبدالوحید کے خلاف آواز نہ اٹھانا بطور معاشرہ خطرناک ہے، ہمیں اس لاعلمی کو تعلیم کے ذریعے دور کرنا ہوگا۔

پولیس کا حافظ آباد میں کریک ڈاؤن

سرگودھا میں 20 افراد کے قتل کی اس لرزہ خیز واردات کے بعد پولیس نے پنجاب کے ضلع حافظ آباد میں جعلی پیروں کے خلاف کریک ڈاؤن کا آغاز کرتے ہوئے 8 جعلی پیروں کو گرفتار کرلیا۔

عوام کو بےوقوف بنانے والے ان جعلی پیروں کے خلاف پولیس نے حافظ آباد کے مختلف تھانوں میں مقدمات درج کرکے انہیں لاک اپ میں بند کردیا۔

تبصرے (1) بند ہیں

Imran Apr 04, 2017 03:40pm
دراصل یہ سب ضعیف اعتقاد اور اندھی عقیدت کے نتائج ہیں ...... اور ان معاملات میں انپڑھ اور تعلیم یافتہ دونوں طرح کے لوگ شامل ہیں !! ایسے جعلی پیر اور نوسرباز لوگ اپنے اور اپنی نسلوں کی روزی روٹی کا بندوبست کرنے کےلیے یہ سب ڈھونگ رچاتے ہیں ............. قصور ان سادے لوگوں کا بھی ہے جو اپنے ذہن کو اخروٹ کی طرح بند کرلیتے ہیں ...... ناصرف خود کو اپنے پیر مرشد کا کتا یا پالتو مان کر جانور کی سطح پر آجاتے ہیں بلکہ اسطرح شرک بھی کرتے ہیں . الله تعالی لوگوں کو عقل و شعور عطا فرما .... آمین .

کارٹون

کارٹون : 23 دسمبر 2024
کارٹون : 22 دسمبر 2024