عمران خان کی تنقید: پیپلزپارٹی کاانتخابی اتحاد پر نظرثانی پر غور
اسلام آباد: پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان کی جانب سے عوامی جلسوں اور نیوز کانفرنسز میں پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) پر مسلسل تنقید کے بعد پی پی پی کے عہدیداران، پارٹی قیادت کے مقامی سطح پر تحریک انصاف کے ساتھ انتخابی اتحاد پر ناراض دکھائی دیتے ہیں۔
عمران خان کی جانب سے پیپلز پارٹی کے خلاف حالیہ تنقید ضلع چکوال کے علاقے تلہ گنگ میں ہونے والے جلسے میں سامنے آئی، جہاں دونوں جماعتیں پنجاب اسمبلی کے بلدیاتی انتخابات کے لیے اتحاد قائم کیے ہوئے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ عمران خان کی جانب سے لگائے جانے والے مسلسل الزامات کے بعد پیپلز پارٹی کی قیادت اس قدر برہم نظر آتی ہے کہ کئی عہدیدار انتخابی عمل سے قبل ہی سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے فیصلے کو واپس لینے کا مطالبہ کررہے ہیں۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق پی پی پی کے ترجمان فرحت اللہ بابر بھی موجودہ صورتحال میں اس فیصلے پر نظرثانی کی تجویز دیتے ہیں۔
فرحت اللہ بابر کے مطابق وہ بدھ (5 اپریل) کو لاڑکانہ میں پیپلز پارٹی کی سینٹرل ایگزیکٹیو کمیٹی کے متوقع اجلاس میں اس معاملے کو اٹھانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
ترجمان پی پی پی کا کہنا تھا کہ ’ذاتی طور پر میں پی ٹی آئی کے ساتھ انتخابی اتحاد کے فیصلے پر نظرثانی کا خواہشمند ہوں لیکن اس بات کا حتمی فیصلہ پارٹی کرے گی‘۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’عمران خان کو خود کو درست سمجھے کی عادت اور اپنے آپ پر غور نہ کرنے کی ضد صرف انہیں ہی نقصان پہنچائے گی، ایسے شخص پر صرف افسوس ہی کیا جاسکتا ہے جو مسلسل خود کو نقصان پہنچنے کے دَر پر ہو‘۔
خیال رہے کہ گذشتہ روز اپنے خطاب میں پی ٹی آئی چیئرمین نے پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین اور سابق صدر آصف علی زرداری کو مشورہ دیا تھا کہ وہ بھی کسی 'قطری' کا بندوبست کرلیں کیوں کہ انہیں بھی اس کی ضرورت پڑنے والی ہے۔
اس دوران تحریک انصاف کے ترجمان فواد چوہدری نے انہیں یاد دلانے کی کوشش بھی کی کہ اس علاقے میں ان کی جماعت پیپلز پارٹی کے ساتھ اتحاد قائم کیے ہوئے ہے۔
مزید پڑھیں: 'آصف زرداری بھی کسی قطری کا بندوبست کرلیں'
اپنے خطاب کے دوران چیئرمین تحریک انصاف نے نہ صرف پیپلز پارٹی کو بلکہ اپنی جماعت کے ترجمان فواد چوہدری کو بھی شرمندہ کردیا۔
عمران خان نے دوران خطاب ہی شرکاء کو بتایا کہ فواد چوہدری ان کے کان میں کیا بتا گر گئے ہیں اور ساتھ ہی پیپلز پارٹی پر تنقید جاری رکھی۔
ان کا کہنا تھا کہ ابھی مجھے بتایا گیا ہے تحریک انصاف نے چکوال میں پیپلز پارٹی سے اتحاد کیا ہوا ہے، لہذا انہیں تنقید سے گریز کرنا چاہیئے۔
عمران خان کا مزید کہنا تھا کہ انہیں اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا، وہ پیپلز پارٹی کی کرپشن کے خلاف آواز بلند کرتے رہیں گے۔
واضح رہے کہ عمران خان یہ الزام بھی عائد کرچکے ہیں کہ پاکستان پیپلز پارٹی نے حکمراں جماعت پاکستان مسلم لیگ (ن) سے کوئی معاہدہ کرلیا ہے تاکہ احتساب سے بچا جاسکے۔
یہ دعویٰ انہوں نے پی پی پی رہنما ڈاکٹر عاصم حسین، حامد سعید کاظمی، ماڈل ایان علی اور سابق صوبائی وزیر شرجیل میمن کے حق میں آنے والے عدالتی فیصلوں کا حوالہ دیتے ہوئے کیا۔
علاوہ ازیں چیئرمین تحریک انصاف، آصف علی زرداری کی وطن آمد کو بھی کسی 'ڈیل' کے نتیجے کا حصہ سمجھتے ہیں۔
یاد رہے کہ گذشتہ چند ماہ سے پی پی پی اور پی ٹی آئی کے درمیان کے ایک غیراعلانیہ سیز فائر جیسی صورتحال تھی جس کی وجہ پاناما کے معاملے پر دونوں جماعتوں کا نقطہ نظر ایک ہونا تھا جبکہ پارلیمانی کارروائی میں بھی دونوں جماعتیں تعاون کرتی دکھائی دیتی رہیں۔
تاہم گذشتہ ہفتے ایک پریس کانفرنس کے دوران عمران خان نے پیپلز پارٹی کے ساتھ اتحاد کے امکان کو یہ کہتے ہوئے مسترد کردیا تھا کہ ‘اتحاد اس وقت تک ممکن نہیں جب تک آصف زرداری پیپلز پارٹی کے سربراہ ہیں‘۔
واضح رہے کہ پنجاب اسمبلی کے حلقہ پی پی 23 (چکوال 4) میں بلدیاتی انتخابات 18 اپریل کو منعقد ہوں گے، یہ سیٹ فروری میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رکن صوبائی اسمبلی ملک ظہور انوار کی وفات کے بعد خالی ہوئی تھی۔
ڈان سے گفتگو کرتے ہوئے پنجاب میں پی پی پی کے صدر قمر زمان کائرہ کا کہنا تھا کہ مستقبل میں کسی بھی حلقے میں پی ٹی آئی سے اتحاد کا فیصلہ کرتے ہوئے ’احتیاط کی جائے گی‘۔
قمر زمان کائرہ کے مطابق انہیں حیرانی ہوئی کہ عمران خان پیپلز پارٹی کو اس جگہ برا بھلا کہہ رہے ہیں جہاں دونوں جماعتوں نے حکمراں جماعت کو مشکل وقت دینے کے لیے اتحاد کیا ہوا ہے۔
انہوں نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے مزید کہا کہ پی ٹی آئی چیئرمین کو کسی کا کوئی خیال نہیں، ’ہم کیا کرسکتے ہیں جب عمران خان اپنی جماعت کے لوگوں کی بات تک نہیں سنتے اور انہیں بھی عوامی سطح پر شرمندہ کردیتے ہیں‘۔
دوسری جانب فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ ان کی جماعت نے پیپلزپارٹی سے کوئی رسمی اتحاد نہیں کیا ہے، چکوال میں ہونے والا اتحاد مقامی سطح پر ہونے والا سیٹ ایڈجسٹمنٹ ہے اور اس کا پی ٹی آئی پالیسیوں سے کوئی لینا دینا نہیں۔
اس سوال کے جواب میں کہ کیا مقامی سیٹ ایڈجسٹمنٹ عمران خان کی اجازت کے بغیر کی گئی، فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ یہ ’اصول‘ نچلی سطح پر لاگو نہیں ہوتے جبکہ سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے معاملے پر مقامی سیاست کے پہلوؤں کو مدنظر رکھنا پڑتا ہے۔
دریں اثناء پیپلز پارٹی کے سینیٹر سعید غنی نے عمران خان کی تنقید کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ ’عمران خان نفسیاتی مریض بن چکے ہیں‘۔
اتوار (2 اپریل) کو جاری ہونے والے بیان میں سعید غنی کا کہنا تھا کہ عمران خان کے والد کو کرپشن الزامات کی وجہ سے نوکری سے ہاتھ دھونا پڑے اور اب وہ چاہتے ہیں کہ ان کے والد کے جرم دوسروں کے خلاف جھوٹے الزامات لگا کر بھلائے جاسکیں۔
انہوں نے یہ الزام بھی عائد کیا کہ کئی خطرناک دہشت گردوں کو عمران خان کے ہسپتال میں علاج فراہم کیا جاچکا ہے لیکن ان کے خلاف دہشت گردوں کو مدد فراہم کرنے کا کوئی مقدمہ شروع نہیں کیا جاسکا۔
تبصرے (1) بند ہیں