کراچی: جماعت اسلامی کا مظاہرہ، کئی شاہراہوں پر بدترین ٹریفک جام
کراچی: حکومت اور کے الیکٹرک کے خلاف جماعت اسلامی کے احتجاج کو پولیس ی جانب سے ناکام بنانے کی کوشش کے بعد مظاہرین مشتعل ہوگئے اور شارع فیصل اور شارع قائدین سمیت کئی شاہراہوں پر دھرنا جس سے ٹریفک کی صورتحال ابتر ہوگئی۔
جماعت اسلامی نے لوڈشیڈنگ کے ساتھ ساتھ اضافی بلنگ کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے شارع فیصل پر دھرنا دینے کا اعلان کیا تھا تاہم انتظامیہ کی جانب سے اس دھرنے کی اجازت نہیں دی گئی تھی۔
پولیس نے شارع فیصل پر جمع ہونے والے جماعت اسلامی کے کارکنان کو منتشر کرتے ہوئے 3 کو حراست میں لے لیا۔
گلشن اقبال کے سپرنٹنڈنٹ پولیس (ایس پی) فہد احمد کا کہنا تھا کہ شارع فیصل پر غیر قانونی طور پر کیمپ لگایا گیا تھا، جس کو ختم کرکے 3 افراد کو حراست میں لیا گیا۔
بعد ازاں پولیس نے کراچی میں جماعت اسلامی کے مرکزی دفتر ادارہ نور حق کو بھی گھیرے میں لے لیا، اس دوران کسی کو بھی دفتر میں داخل ہونے اور نکلنے کی اجازت نہیں دی گئی۔
اس حوالے سے جماعت اسلامی کراچی کے امیر حافظ نعیم الرحمٰن کا کہنا تھا کہ احتجاج کا مقصد کے الیکٹرک کی غنڈہ گردی کا خاتمہ ہے، بجلی کے اضافی بلز پر احتجاج کیا جا رہا تھا۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ جماعت اسلامی نے رابطہ عوام مہم شروع کر دی ہے جو رکنے والی نہیں ہے، دفعہ 144 کا نفاذ جمہوری عمل نہیں، اگر احتجاج کو ایسے ہی روکا گیا تو جگہ جگہ دھرنا دیں گے۔
علاوہ ازیں جماعت اسلامی کے ترجمان نے بتایا کہ کراچی کے اہم مسئلے پر احتجاج کرنا چاہتے تھے، طاقت کا بلاجوازاستعمال کیا جا رہا ہے، شارع فیصل اور دفتر سے کارکنوں کو گرفتار کیا جارہا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ادارہ نورحق کے تمام راستوں پر پولیس کو تعینات کیا گیا۔
بعد ازاں پولیس نے حافظ نعیم الرحمٰن کو بھی حراست میں لے کر بریگیڈ تھانے منتقل کیا، تاہم انہیں حراست میں لیے جانے کے چند گھنٹے بعد رہا کردیا گیا۔
حافظ نعیم کو زیر حراست لیے جانے پر جماعت اسلامی کے کارکن مشتعل ہوگئے اور مظاہرہ کرتے ہوئے شارع فیصل کو ٹریفک کے لیے بلاک کردیا، جس کے باعث وہاں سے گزرنے والے مسافروں کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔
مظاہرین کی جانب سے پولیس پر پتھراؤ کیا گیا اور ٹائر جلا کر نیو ایم اے جناح روڈ بھی بند کردی گئی، جس کے بعد پولیس کی شیلنگ سے جماعت اسلامی کے متعدد کارکن زخمی ہوئے۔
شارع قائدین پر احتجاج
شارع فیصل پر احتجاج سے روکے جانے اور کارکنان کی گرفتاری کے بعد جماعت اسلامی کے کارکن شارع قائدین پر بھی جمع ہوئے اور اسے بھی ٹریفک کے لیے بلاک کردیا، جس سے شہریوں کو پریشانی اٹھانی پڑی۔
شارع قائدین پر مشتعل مظاہرین کی جانب سے ٹائر بھی جلائے گئے۔
جماعت اسلامی سندھ کے امیر ڈاکٹر میراج الہدیٰ صدیقی نے احتجاج کے دوران حافظ نعیم سمیت جماعت اسلامی کے تقریباً 25 کارکنوں کو حراست میں لیے جانے کا دعویٰ کیا۔
ان کا کہنا تھا کہ ’پولیس شہر کے مختلف علاقوں سے ہمارے کارکنوں کو گرفتار کر رہی ہے، تاہم گرفتار ہونے والے کارکنان سے متعلق میرے پاس کوئی حتمی تعداد نہیں، جبکہ پولیس نے ہمارے کیمپس بھی اکھاڑ دیئے۔‘
بعد ازاں پولیس کی حراست سے رہائی کے بعد ادارہ نور حق پہنچنے پر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے حافظ نعیم الرحمٰن کا کہنا تھا کہ ’کارکنوں کو گرفتار اور تشدد کا نشانہ بنایا گیا، ہماری جماعت نظریاتی ہے اور ہم عدم تشدد کے پیروکار ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ ’مختلف ادوار میں کبھی کے ای ایس سی تو کبھی کے الیکٹرک کے ناموں سے لوٹا گیا، ہمارا پرامن مظاہرہ کرنے کا پروگرام تھا لیکن اس پرامن مظاہرے کو پرتشدد میں تبدیل کیا گیا۔
تبصرے (1) بند ہیں