• KHI: Maghrib 5:43pm Isha 7:02pm
  • LHR: Maghrib 5:01pm Isha 6:26pm
  • ISB: Maghrib 5:01pm Isha 6:28pm
  • KHI: Maghrib 5:43pm Isha 7:02pm
  • LHR: Maghrib 5:01pm Isha 6:26pm
  • ISB: Maghrib 5:01pm Isha 6:28pm

حکومت آئی پی پیز کے بلوں کی ادائیگیوں میں تذبذب کاشکار

شائع March 30, 2017

لاہور: رواں مالی سال کے بجٹ میں 3.8 فیصد خسارے کے باعث رقم کی کمی کاشکار حکومت فوری طور اور مستقبل قریب میں بھی پرائیویٹ پاور پروڈیوسرز کے بلوں کی ادائیگی کرنے کا ارادہ نہیں رکھتی، یہ واجب الادا رقم 250 ارب تک پہنچ چکی ہے۔

حال ہی میں پاور کمپنیوں اور پرائیویٹ پاور انسٹیٹیوشن بورڈ (پی پی آئی بی) کے درمیان ہونے والی بات چیت یہ واضح کرتی ہے کہ حکومت اور آزاد توانائی پروڈیوسرز (آئی پی پیز) کے درمیان بلوں کی ادائیگیوں کے حوالے سے حالات کشیدہ صورت اختیار کرسکتے ہیں۔

13 آئی پی پیز کو لکھے گئے خطوط کے مطابق ان کی جانب سے 48 ارب روپے کے بلوں کی ادائیگی کیلئے 2 مارچ کو دی گئی درخواست کو بورڈ نے مسترد کردیا، جس میں خود مختار ضمانت کو ریکوری کی لاگت کی مد میں استعمال کرنے کا مطالبہ کیا گیا تھا اور اس کے بجائے حکومت کے خلاف اخبارات میں اشتہارات کے ذریعے مبینہ طور پر غلط مہم چلانے پر مذکورہ کمپنیوں کو قانونی نوٹس جاری کرنے کا عندیہ دیا ہے۔

پاور پروڈیوسرز کمپنیوں کا دعویٰ ہے کہ حکومت کے اپنے ریکارڈ کے مطابق اس کے ذمہ 253 ارب روپے کی رقم واجب الادا ہے۔

اگر سرکاری شعبے کی کمپنیوں کی واجب الادا رقم کو بھی اس میں شامل کرلیا جائے تو توانائی کے شعبے کی واجب الادا بلوں کا مجموعی حجم 414 ارب روپے تک پہنچ جاتا ہے۔

خود مختار ضمانت کے نوٹس جاری ہونے کے بعد 10 مارچ کو پی پی آئی بی اور پاور کمپنیوں کے درمیان ہونے والے ایک اجلاس کے دوران پیداواری کمپنیوں کو یہ یقین دہانی کرائی گئی تھی کہ تمام معاملات بات چیت کے ذریعے حل کرلیے جائیں گے، لیکن بعد ازاں کچھ تبدیلی ہوئی اور بورڈ نے کمپنیوں کی جانب سے خود مختار ضمانت کے حوالے سے کی گئی درخواست کو مسترد کردیا۔

اس کے علاوہ آخری لمحے میں صنعتوں کے ساتھ دوسرا اجلاس بھی ختم کردیا گیا۔

آئی پی پیز کے نوٹسز کو مسترد کرنے کی وضاحت دیتے ہوئے بورڈ کا کہنا تھا کہ پاور کمپنیوں نے اپنے مطالبات کے لیے توانائی کی خریداری کے معاہدے میں وضع کے گئے طریقہ کار پر عمل نہیں کیا۔

بورڈ نے کمپنیوں کو لکھے گئے 10 اور 18 مارچ کے خطوط میں دباؤ دیا کہ پاور پروڈیوسرز کمپنیوں کی جانب سے غیر قانونی اور بد نیتی پر مبنی مہم چلانے پر حکومت ان کے خلاف قانونی چارہ جوئی کا ارادہ رکھتی ہے بصورت دیگر یہ کمپنیاں مذکورہ اشتہارات سے لاتعلقی کا اظہار کریں، غیر مشروط تحریری معافی مانگنے اور کسی بھی طرح کے توہین آمیز اور اہانت آمیز بیانات سے گریز کریں۔

گذشتہ روز ایک پریس کانفرنس میں پانی اور توانائی کے وزیر مملکت عابد شیر علی نے بھی آئی پی پیز کو خبردار کیا تھا کہ 'اشتہارات کے ذریعے حکومت کو بدنام کرنے والی مافیا کو سبق سکھایا جائے گا۔'

دریں اثناء سینٹرل پاور پرچیزنگ ایجنسی (سی پی پی اے) نے آئی پی پیز کی جانب سے پیش کی گئیں تمام رسیدوں کو متنازع قرار دیتے ہوئے کہا کہ کمپنیاں بجلی کی خریداری کے معاہدوں کے تحت 'ہر وقت 30 یوم کے لیے ایندھن کا ذخیرہ برقرار رکھنے کی پابند ہیں' تاہم وہ اپنی ذمہ داریاں نبھانے میں ناکام رہی ہیں.

سی پی پی اے نے الزام لگایا کہ آئی پی پیز ہر ماہ اپنی رسیدیں تیار کرتے ہیں اور 30 یوم کے ایندھن کے ذخیرے کو برقرار رکھے بغیر مکمل ٹیرف کا مطالبہ کرتے ہیں۔

سی پی پی اے کا مزید کہنا تھا کہ آئی پی پیز نے مطلوبہ ایندھن کے ذخیرے کیلئے ورکنگ کیپٹل کے نام سے زائد رقم وصول کی اور خود کو ناحق افزودہ کیا ہے۔

سی پی پی اے کی جانب سے پاور پروڈیوسرز کو لکھے گئے خط میں کہا گیا کہ 'اس کے نتیجے میں آئی پی پیز نے وہ رقم وصول کی جو قانونی طور پر معاہدے کے تحت ان کو ادا کرنے کیلئے نہیں تھی اور نتیجے کے طور پر حکومت کی ضمانت پر غلط مطالبہ کیا گیا جس نے خریداروں کی جانب سے (ان بلوں کی) ادائیگیاں تاخیر کی وجہ بنیں۔

اس خط میں آڈیٹر جنرل (اے جی) کی ایک رپورٹ کا تذکرہ بھی کیا گیا جو انھوں نے حکومت کی جانب سے جون 2013 میں توانائی کے شعبے کیلئے کی جانے والی 480 ارب روپے کی ادائیگیوں کے حوالے سے تیار کردہ اپنی خصوصی آڈٹ رپورٹ میں کیا تھا۔

دوسری جانب آئی پی پیز کا کہنا ہے کہ پی پی آئی بی کی جانب سے ان کی خود مختار ضمانت کے حوالے سے کیے جانے والے مطالبے کو بے بنیاد مسترد کیا گیا ہے جیسا کہ یہ ضمانت مشروط طریقے کے مطابق ہے جبکہ بورڈ کی جانب سے اسے مسترد کیا جانا حکومت کی بدنیتی کو ظاہر کرتا ہے۔

ایک آئی پی پی کے چیف نے ڈان کو بتایا کہ 'بورڈ کی جانب سے بھیجے گئے خط کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے کیونکہ ہماری کمپنی مکمل طور پر ضمانت کی لازمی شرائط اور ضروریات پر عمل پیرا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ 'ہم مذکورہ خط کا جواب تیار کررہے ہیں، حکومت توانائی پیدا کرنے والی نجی کمپنیوں کو خود مختار ضمانت سے دستبردار ہونے کیلئے دباؤ نہیں ڈال سکتی، حقیقت میں ہم اپنے بلوں کی ادائیگیوں کے حوالے سے نئے مطالبات کرنے جارہے ہیں، کم سے کم 4 کمپنیوں نے ضمانت کے تحت 6 ارب روپے کے واجب الادا بلوں کا نیا مطالبہ کردیا ہے، مزید نوٹسز آئندہ کچھ روز میں پیش کردیئے جائیں گے۔'

انھوں نے کہا کہ حکومت اس قسم کے اقدامات کے ذریعے پاور کمپنیوں کی ادائیگیوں کے مطالبے پر تاخیری حربے استعمال کررہی ہے۔

یہ رپورٹ 30 مارچ 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

کارٹون

کارٹون : 22 نومبر 2024
کارٹون : 21 نومبر 2024