سندھ کی تعلیم کا نوحہ
لگتا ہے کہ وزیر اعلیٰ سندھ، سید مراد علی شاہ کو بالآخر صوبے، بلکہ پورے ملک میں شعبہ تعلیم کی بدتر حالت جیسے اہم ترین چیلنج پر ہوش آ ہی گیا۔
محکمہ تعلیم کی کارکردگی کے حوالے سے منعقد اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے انہوں نے اظہار خیال کیا کہ ناخواندگی ہی تمام مسائل کی جڑ ہے، اب چاہے یہ بیان پوری طرح حقیقت پر مبنی نہ ہو مگر دو ایسے حقائق ہیں جن پر شکوک و شبہات کی کوئی گنجائش نہیں۔ پہلا یہ کہ ترقی کے لیے تعلیم یافتہ اور ہنر مند افرادی قوت درکار ہوتی ہے، جو کہ لازمی ہے کہ کم از کم بنیادی تعلیم کی حامل ہو جبکہ دوسرا یہ کہ گزشتہ دہائیوں کے دوران پاکستان اپنی عوام کو معیاری تعلیمی خدمات دینے میں زبردست زوال کا شکار رہا ہے۔
اس کی مختلف وجوہات ہیں، جن میں فنڈز کی کمی اور نامناسب وسائل، اس کے ساتھ ساتھ حقیقی بہتری لانے کے لیے انتظامی سطح پر کمٹمنٹ کی کمی شامل ہیں؛ جبکہ بڑھتی شرح آبادی کا بھی ایک اہم کردار رہا ہے۔
چند علاقوں میں، اسکول جانے کے لیے بچوں کو کافی دور تک سفر کرنا پڑتا ہے؛ ایسے بھی اسکول ہیں جو کہ ٹوائلٹس اور پینے کے پانی کی سہولیات جیسے بنیادی ڈھانچے سے بھی عاری ہیں، اس کے ساتھ ساتھ ’گوسٹ’ اسکول بھی ہیں جو یا تو صرف کاغذ پر وجود رکھتے ہیں یا پھر غیر فعال ہیں جہاں کا اسٹاف مسلسل تنخواہیں اٹھانے کے باوجود بھی اسکول آنے کی زحمت نہیں اٹھاتا۔
سندھ اور باقی ملک میں فرائض کا احساس ہونے کے باوجود اقدامات نہ کرنے اور مسائل پر عدم توجہی برتنے کی کئی مثالیں موجود ہیں، مگر اہم نکتہ تو یہ ہے کہ: نہ ریاست اور نہ ہی صوبے اپنا آئینی فرض، کہ ہر بچہ اسکول میں داخل ہو، ادا نہیں کر رہے یں۔
اسی لیے وزیر اعلٰی نے محکمہ تعلیم کو جن مسائل کا حل یقینی بنانے کے لیے جو بھی ہدایات دی ہیں، چاہے ان کا تعلق بنیادی ڈھانچے کی فراہمی یا نصابی اصلاحات سے ہو یا پھر اسکالرشپ کی دستیابی سے ہو، لازمی طور پر ان کا خیر مقدم کیا جائے۔ جبکہ یہ امید بھی کی جاتی ہے کہ یہ عزم محض بیان بازی کی حد تک ہی محدود نہیں رہے گا۔ سندھ میں مسئلہ تعلیم کے حل کے لیے کافی حد تک ایک ہی وقت میں مختلف محاذوں پر لائحہ عمل تیار کرنے کی ضرورت ہے۔ کیا شاہ صاحب ایسا کرنے کا پختہ عزم رکھتے ہیں؟
یہ اداریہ 25 مارچ 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔