پی آئی اے بمقابلہ خلیجی ایئرلائنز، 'حکومت کو میدان میں آنا ہوگا'
پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائن (پی آئی اے) کے چیف ایگزیکٹو برنڈ ہلڈن برانڈ کا کہنا ہے کہ خلیجی ایئرلائنز کے ساتھ مقابلے کے لیے حکومت پاکستان کو میدان میں آنا ہوگا اور پاکستان میں ان ایئرلائنز کی پروازوں کی تعداد کو محدود کرنے جیسے اقدامات اٹھانے ہوں گے۔
برطانوی خبر رساں ایجنسی رائٹرز کے مطابق جرمنی سے تعلق رکھنے والے پی آئی اے کے چیف ایگزیکٹو نے کہا کہ سرکاری ایئرلائن کو ماہانہ 3.1 ارب روپے کا نقصان ہورہا ہے جبکہ ایمرٹس اور اتحاد جیسی ایئرلائنز کا مارکیٹ شیئرز بڑھ رہا ہے اور پاکستان میں ان کی ڈیمانڈ بھی بڑھ رہی ہے۔
خیال رہے کہ برنڈ ہلڈن برانڈ کا نام پاکستانی وزارت داخلہ نے ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں رواں ماہ کے آغاز میں ڈالا تھا جبکہ حکومت ایک طیارے کی لیز کے حوالے سے ہونے والے معاہدے کی تحقیقات بھی کررہی ہے البتہ برنڈ ہلڈن کسی بھی قسم کی بدعنوانی کے الزام کو مسترد کرتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: 'سی ای او پی آئی اے کا نام ای سی ایل میں شامل'
برنڈ کا مزید کہنا تھا کہ 'ہمارے لیے یہ انتہائی مشکل ہے کہ ہم ایمرٹس کے ساتھ مقابلہ کریں کیوں کہ خلیجی ایئرلائنز زیادہ بہتر اور سستی سروسز فراہم کررہی ہیں جبکہ فنڈز کی کمی کی وجہ سے پی آئی اے کو اپنے 35 طیاروں پر مبنی فضائی بیڑے کی تجدید میں مشکلات کا سامنا ہے'۔
انہوں نے کہا کہ اس معاملے میں پی آئی اے کو حکومت کی مدد درکار ہے جس میں ممکنہ طور پر حکومت کی جانب سے اوپن اسکائی پالیسی میں سختی کرنا بھی شامل ہوسکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ دیگر کئی ممالک اور بلاک کے درمیان ہونے والے دو طرفہ تجارتی معاہدوں میں کافی حدود و قیود ہیں، مثال کے طور پر کینیڈا جس نے اتحاد اور ایمرٹس کی اپنے ملک میں پروازوں کی تعداد کم کردی ہے جبکہ یورپی ممالک بھی ان ایئرلائنز کو کھلی چھوٹ نہیں دیتے۔
ان کا کہنا تھا کہ وہ مسابقت کے خلاف نہیں ہیں تاہم لامحدود مسابقت بھی ممکن نہیں۔
مزید پڑھیں: پی آئی اے پریمیئرسروس:سری لنکا کا لیز پر لیا گیا مہنگاجہاز واپس
ہلڈن برانڈ نے کہا کہ 'پی آئی اے کا مجموعی خسارہ 2016 کے آخر تک 186 ارب روپے تک جاپہنچا تھا، میں حکام سے درخواست کرتا ہوں کہ پی آئی اے کو دوبارہ منافع بخش بنانے کے لیے اس کی مدد کریں'۔
انہوں نے اس بات کا بھی اعتراف کیا کہ پی آئی اے کو منافع کی جانب آنے میں کم سے کم 3 سال لگ سکتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ 25 برسوں کے دوران جو چیزیں غلط ہوئی ہیں انہیں 6 ماہ میں ٹھیک کرنا ناممکن ہے۔
تبصرے (1) بند ہیں