ماحولیاتی تبدیلی کے منفی اثرات : پاکستان ساتویں نمبر پر
اسلام آباد: وفاقی وزیر برائے ماحولیاتی تبدیلی زاہد حامد نے کہا ہے کہ پاکستان دنیا کے ان پانچ ممالک میں شامل ہے، جہاں ماحولیاتی تبدیلیوں کے حوالے سے خصوصی قانون موجود ہے، جس کے تحت ملک کی ترقی اور مستحکم پیداوار کو یقینی بنانے میں مدد لی جاسکتی ہے۔
دارالحکومت میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے زاہد حامد کا کہنا تھا کہ پاکستان کلائمٹ چینج ایکٹ 2016 جو قومی اسمبلی اور سینیٹ سے منظور ہوچکا ہے، یہ ایکٹ ایسے اداروں کی تشکیل میں مدد فراہم کرے گا جو موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات کو کم کرنے کے ساتھ ساتھ ان سے مطابقت فراہم کریں گے۔
خیال رہے کہ پارلیمان کے دونوں ایوانوں سے کسی بل کی منظوری کے بعد اس پر صدر مملکت دستخط کرتے ہیں، جس کے بعد یہ باقاعدہ قانون بن جاتا ہے، اور اس کا اطلاق شروع ہو جاتا ہے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق زاہد حامد کا کہنا تھا کہ ماحولیاتی تبدیلیوں کے اثرات سے دوچار ممالک میں پاکستان ساتویں نمبر پر ہے جبکہ ان تبدیلیوں کے بڑھتے ہوئے منفی اثرات کو کم کرنے کے لیے ہمیں ماحولیاتی تبدیلی ایکٹ کی ضرورت ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان کلائمٹ چینج بل کی منظوری پاکستان کے ماحولیات کے حوالے سے کام کرنے والے افراد کے لیے ایک تاریخی دن تھا۔
اس قانون کے بعد تین اہم ادارے قائم کیے گئے ہیں، جن میں پاکستان کلائمیٹ چینج کونسل، پاکستان کلائمیٹ چینج اتھارٹی اور پاکستان کلائمیٹ چینج فنڈ شامل ہے۔
نئے اداروں سے متعلق مزید تفصیلات پیش کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ کونسل کی صدارت وزیراعظم کریں گے جبکہ وزرائے اعلیٰ اس کے ارکان میں شامل ہوں گے۔
علاوہ ازیں صوبائی وزرائے ماحولیات، آزاد جموں کشمیر اور گلگت بلتستان کے سیکریٹریز سمیت این جی اوز، سائنسدان اور محققین بھی اس کا حصہ ہوں گے۔
وزیر موسمیاتی تبدیلی کا کہنا تھا کہ ممکنہ معاشی ترقی کو دیکھتے ہوئے پاکستان میں آئندہ 15 سال کے دوران کاربن ڈائی آکسائڈ کا اخراج 405 میٹرک ٹن کی سطح سے 1603 میٹرک یا اس سے بھی زائد ہوسکتا ہے۔
زاہد حامد نے مزید کہا کہ مستقبل میں کاربن ڈائی آکسائڈ کے اخراج پر قابو پانے اور اسے 20 فیصد تک کم کرنے کے لیے بین الاقوامی برادری سے 40 ارب ڈالر طلب کیے گئے ہیں جبکہ ماحولیاتی چیلنجز سے نمٹنے کے لیے سالانہ 14 ارب روپے بھی لیے گئے ہیں۔