دنیا قلت آب کا شکار، حل کیا ہے؟
دنیا کی سطح کا 70 فیصد سے زائد حصہ پانی ہے، تاہم اس میں سے سمندر اور زیر زمین کھارے پانی کو نکال دیں تو صرف 2.75 فیصد تازہ پانی انسانوں کے پینے کے قابل ہے۔
دوسری جانب اقوام متحدہ کا ماحولیات کے لیے کام کرنے والا ادارہ اس بات کی پیش گوئی کرچکا ہے کہ 2030 تک صنعتوں، توانائی کے شعبے سمیت اور آبادی میں ہونے والے ایک ارب افراد کی ضروریات کے لیے پانی کی طلب 50 فیصد تک بڑھ جائے گی۔
تازہ پانی کا استعمال جس قدر تیزی سے جاری ہے اتنی تیزی سے قدرتی طور پر استعمال شدہ پانی صاف نہیں ہوپاتا، اسی لیے پانی کے استعمال میں توازن کو اجاگر کرنے کے لیے پانی کا عالمی دن 22 مارچ کو منایا جاتا ہے۔
گلوبل وارمنگ بھی دنیا کے بیشتر حصوں میں پانی کمی اور خشک سالی کی ایک اہم وجہ بن چکا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ اقوام متحدہ کی جانب سے جاری ہونے والی رپورٹ میں استعمال شدہ پانی کا دوبارہ استعمال عالمی پانی کی کمی کو پورا کرنے کے لیے ضروری قرار دیا گیا۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق موجودہ وقت میں بھی دنیا کی دوتہائی آبادی ان علاقوں میں رہتی ہے جہاں سال میں کم از کم ایک بار پانی کی قلت دیکھنے میں آتی ہے، ان ممالک میں چین اور بھارت بھی شامل ہیں۔
رپورٹ میں مزید بتایا گیا ہے کہ ہر سال 80 ہزار افراد آلودہ پانی پینے اور ہاتھ دھونے کے لیے پانی میسر نہ ہونے کے سبب جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔
افریقہ، ایشیا اور لاطینی امریکا میں سالانہ 35 لاکھ افراد پانی سے جڑی بیماریوں میں متاثر ہوتے ہیں جو دنیا بھر میں ایڈز اور ٹریفک حادثات سے مرنے والوں کی تعداد سے زیادہ ہے۔