ضرورت برائے ہندو، شیعہ، عیسائی خاکروب
بنوں کی مقامی انتظامیہ کی جانب سے خاکروب کی ملازمت کے لیے ایک اشتہار چھپوایا گیا، جس کے ذیل میں المشتہر: تحصیل میونسپل آفیسر ٹی ایم اے بنوں، بحکم: تحصیل ناظم، ٹی ایم او بنوں لکھا تھا۔
یہ اشتہار ایک خاکروب کی ملازمت کے لیے تھا، اور اہلیت کے خانے میں عیسائی، ہندو، بالمیکی اور شیعہ لکھا تھا۔ عیسائیوں، ہندوؤں، بالمیکیوں یا شیعوں کے عقائد میں ایسا کون سا جوہر ہے جو انہیں اس ملازمت کے لیے اہل بناتا ہے، میری تو سمجھ سے باہر ہے۔
رات تک وزیرِ بلدیات عنایت اللہ خان صاحب کی وضاحت بھی آ گئی کہ لفظ شیعہ غلطی سے شامل کیا گیا تھا اور آئندہ کسی اشتہار میں مَسلک یا مذہب کا ذکر نہیں ہوگا۔ چلیں یہ تو اچھا ہے کہ ایسے وزرا بھی موجود ہیں جو غلطی مانتے ہیں اور درست کرنے کا وعدہ بھی کرتے ہیں۔
مگر مسئلہ اشتہار میں چھپے الفاظ سے بلند تر ہے۔
مجھے یاد ہے کہ جب ہم اسکول میں پڑھا کرتے تھے تو ایک صبح اسمبلی میں قرآن مجید کی تلاوت اور قومی ترانے کے درمیان ایک خاتون آ کر کھڑی ہو گئیں۔ نام تو خدا جانے کیا تھا ان کا، لیکن سب انہیں ماسی کہہ کر پکارتے تھے۔ وہ ہمارے اسکول کی خاکروب تھیں اور ہم نے انہیں ہمیشہ ایک ہاتھ میں جھاڑو یا پوچا لیے فرش چمکاتے دیکھا۔
واپڈا ہائی اسکول رچنا بلاک اقبال ٹاؤن، ایک نیم سرکاری اسکول تھا اور بچوں کی تعداد اتنی زیادہ تھی کہ ایک آدھ ماسی کے بس کا کام نہ تھا۔ دو ایک اور بھی جمعدار تھے مگر اسکول کی صفائی کا سارا بوجھ اس نحیف جان پر تھا جس کو ہم نے کبھی کسی سے بات کرتے نہ دیکھا۔ خدا جانے اس دن مائیک پر سب کے سامنے وہ کیا کرنے آئی تھی۔
اسمبلی میں ایک تو مولوی صاحب آیا کرتے تھے جو تھے تو کلرک مگر ساتھ ہی کسی مذہبی جماعت کے سیکریٹری بھی تھے۔ ان کے منہ سے نکلے الفاظ میں ایک وزن ہوتا تھا، زیادہ تر وہی حافظ صاحب تھے جو صبح صبح پوری اسمبلی کو قرآنی آیات یاد کرواتے تھے۔ یہ ایک معمول بن چکا تھا۔ ایسے میں ماسی کا آنا ہم سب کے لیے خاصا دلچسپ تجربہ تھا۔
جانیے: مسلمان خاکروبوں کی تعیناتی سےہسپتالوں کی صفائی متاثر
وہ جھجھکتے ہوئے کچھ بولیں۔ بات کچھ باتھ روموں کی صفائی کے حوالے سے تھی، سچ یہ ہے کہ وہ باتھ روم جو صبح دم صاف ہوتے تھے، چھٹی کے وقت تک ناقابل استعمال ہو چکے ہوتے تھے۔ مجھے اور کچھ تو یاد نہیں، لیکن ان کا یہ جملہ ضرور یاد ہے کہ “آپ لوگ ہم سے بہتر صفائی کا خیال رکھا کریں، آپ کے تو دین میں بھی صفائی نصف ایمان ہے۔”
مجھے اس وقت تک مذاہب عالم کی تفریق اور پیشوں کی سماجی تقسیم کے بارے میں زیادہ علم نہیں تھا۔ میں نے اس دن اپنی ٹیچر سے پوچھا کہ ماسی کے اس جملے کا کیا مطلب ہے اور کیا وہ ہمارے مذہب سے تعلق نہیں رکھتیں؟ ہمارے اسکولوں میں استادوں کے نزدیک سوال مکروہ بلکہ بعض جگہوں پر حرام کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ مجھے جواب نہ ملا۔
بھلا ہو منٹو، ممتاز مفتی، قدرت اللہ شہاب اور اشفاق احمد کا کہ وہ جواب دے گئے جو معاشرتی علوم کی کسی کتاب میں نہ ملا۔ لائبریری سے ادھار لی گئی کتابوں کے صفحوں میں ہمیں ملا۔ وہ خاتون مسیحی تھیں اور بظاہر جمعدار اور مسیحی ہونا لازم و ملزوم تھے۔ اس کے بعد ساری زندگی میں نوٹ لیتا رہا۔
میں نے آج تک کوئی مسلمان جمعدار نہیں دیکھا۔ صفائی کی تاکید پر احادیث سنیں، جمعداری کے پیشے کی عظمت پر فیس بک پر چمکتی ہوئی گرافکس بھی دیکھیں مگر کبھی کسی مسلمان جمعدار سے ملاقات نہ ہو سکی۔ ایک عرصے تک میں سمجھتا رہا کہ شاید کسی مذہبی کتاب میں لکھا ہوا ہے کہ ایک مسلمان یہ پیشہ کبھی اختیار نہیں کر سکتا۔
پھر ایک ہندوستانی فلم میں ایک مسلمان جمعدار دیکھا اور تھوڑی تحقیق کی تو پتہ چلا کہ ہندوستان میں جمعداری کے پیشے میں مسلمان کافی بڑی تعداد میں ہیں۔ دھیرے دھیرے یہ عقدہ کھلا کہ پیشے کا تعلق افراد کے انفرادی فیصلوں سے کم اور معاشرے کی اجتماعی تقسیم سے زیادہ ہے۔
لوگوں کو شاید یہ اشتہار ایک لاشعوری تعصب محسوس ہو مگر میرے ایک دوست بتاتے ہیں کہ بنوں کے پاس ایک شیعہ اکثریت کا گاؤں ہے جس کے نوے فیصد حضرات کا تعلق اسی پیشہ سے ہے، جیسے پنجاب کے بہت سارے گاؤں ایسے ہیں جہاں کی اکثرت عیسائی ہے اور خاکروبی کے شعبے سے مسلک ہے۔
اشتہار بنانے والوں نے زمینی حقائق کو کاغذی دستاویز میں منتقل کر دیا ہے۔ مسئلہ اشتہار میں مسلک و مذہب کی قید کا نہیں ہے، مسئلہ یہ ہے کہ اہلیت کے خانے میں ان ناموں کے استعمال سے یہ پیشہ کسی فرقے یا مذہب کے لیے مخصوص ہونے کا تاثر مل رہا ہے۔
مسئلہ ان فلٹرز کا ہے جن کے ذریعے ہم اب بھی کسی خاص فرقہ، کسی خاص قوم اور کسی خاص قبیلے کو پہلے ایک مخصوص معاشی سمت کی طرف ہنکارتے ہیں اور پھر اس معاشی طریقے کی بنیاد پر سماجی رتبے کھڑے کرتے ہیں۔
برِصغیر کے قدیمی نظام میں پیشے ذاتوں اور برادریوں تک محدود تھے۔ برہمن مذہب کے حواری، ویش تجارت کے ذمہ دار، کھشتری حکومت کے نگران اور شودر کم تر پیشوں کے حقدار۔ سماجی رتبے بھی اسی بنیادی تقسیم کی بنیاد پر قائم تھا۔ یہ نظام ایک کاٹیج انڈسٹری کی طرح تھا کہ جس میں ہر ذات اور برادری ایک معاشی نظام کی رکھوالی کرتی تھی اور اس نظام سے باہر نکلنا نہ صرف معاشی طور پر ناممکن تھا بلکہ معاشرتی طور پر بھی۔
جانیے: 1857 کی بغاوت میں ذات پات کی تفریق
کمہار، میراثی، دھوبی، موچی، ماشکی، چمار، درزی، جولاہا، نائی وہ پست طبقے تھے جن کے استحصال پر یہ وسیع معاشرہ قائم تھا۔ مذہب اور حکمران بدل گئے تو ہم نے طبقوں کی حد بندی کر دی۔ کچھ ذاتیں نیچے سے اوپر چلی گئیں اور کچھ اِدھر سے اُدھر مگر نظام قائم رہا۔ احمد ندیم قاسمی کو بھی یہی دکھ تھا، امرتا پریتم بھی اسی روگ میں جل اٹھی اور فیض صاحب نے بھی اسی لیے زندگی کا غم منایا۔
آج کے نام
اور آج کے غم کے نام
آج کا غم کہ زندگی کے بھرے گلستان سے خفا
زرد پتوں کا بن جو میرا دیس ہے
درد کی انجمن جو میرا دیس ہے
ہمارا ادبی اور سیاسی شعور ہر دور میں ان پیشوں کی عظمت کا ترانہ پڑھتا رہا ہے۔ انہیں 'بادشاہِ جہاں، والی ماسوا، بہشتی، نائب اللہ فی الارض دہقاں' کہتے رہے اور ہمارا معاشرہ ان اشعار پر سر دھن کر وہی کرتا رہا جو وہ ہزاروں سالوں سے کرتا آ رہا ہے۔
اپنی جوتی گانٹھنے والے نبی کے چاہنے والوں کو، اپنی چکی پیسنے والی بی بی فاطمہ کے نام لینے والوں کو اور اپنا لباس سینے والے خلفاء کے پیروکاروں کو فلسفے کی حد تک تو اپنے ہاتھ سے کام کرنے والوں سے کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ مسئلہ ان دیواروں کا ہے جو ہم نے ورثے میں پائی ہیں اور سینے سے لگائی ہوئی ہیں۔ مسئلہ اس سماجی تقسیم میں ہے جو معاش کے ذریعے کو سماج کے رتبے تولنے میں استعمال کرتا ہے۔
پڑھیے: لازمی سروسز ایکٹ اور ملُو مہارانی
ایک ایسے استحصال کی بنیاد فراہم کرتا ہے جس میں چمار چوہدری سے کم تر ہے، میراثی ملک سے اور کہمار زردار سے۔ وہ دیواریں جن کے ایک طرف اونچے فرقے یا مذاہب ہیں جو ان 'گندے' کاموں کو ہاتھ نہیں لگاتے اور دوسری طرف وہ طبقے ہیں جو کم تر کاموں کی چکی میں پستے رہتے ہیں۔
اب بھی پنجاب کے کسی گاؤں میں، سندھ کے کسی گوٹھ میں چلے جائیں۔ اب بھی ذاتوں کی نا دیدہ دیواریں پھلانگنے پر بیٹیاں زمین میں دی جاتی ہیں، بوڑھے چوپالوں میں بے عزت کیے جاتے ہیں اور جوانوں کے سر مونڈھ کر گدھوں پر پھرایا جاتا ہے۔
مسئلہ اشتہار کا نہیں ہے وزیر صاحب۔ مسئلہ کسی عربی کو عجمی پر اور گورے کو کالے پر فوقیت نہیں، اعلان کرنے والے کی دھرتی میں چلنے والے تفریقات کا ہے۔ مسئلہ اشتہار کا غم منانا نہیں، بلکہ آج کا غم منانا ہے۔
تبصرے (5) بند ہیں