بریگزٹ کا عمل 29 مارچ سے شروع ہوگا
لندن: برطانوی وزیراعظم تھریسا مے برطانیہ کی یورپی یونین سے علیحدگی (بریگزٹ) کا عمل 29 مارچ کو شروع کریں گی جس کے بعد یورپی یونین اور برطانیہ کے دوران 2 سال تک مذاکرات کا سلسلہ جاری رہے گا۔
برطانوی حکومت کے ترجمان نے اس بات کی تصدیق کی کہ وزیراعظم تھریسامے کے یورپی یونین میں مستقل مندوب نے یورپین کونسل کے صدر ڈونلڈ ٹسک کو مطلع کردیا ہے کہ تھریسا مے 29 مارچ کو بریگزٹ کا عمل باضابطہ طور پر شروع کرنے والی ہیں۔
برطانوی خبر رساں ایجنسی رائٹرز کے مطابق یورپی یونین کا کہنا ہے کہ 29 مارچ کو جب تھریسا مے برطانوی آئین کے آرٹیکل 50 کے تحت حاصل اختیارات استعمال کرتے ہوئے برطانیہ کی علیحدگی کے حوالے سے خط لکھیں گی تو یورپی یونین برطانیہ سے مذاکرات شروع کرنے کے لیے تیاری شروع کرے گا۔
یہ بھی پڑھیں: برطانوی ملکہ الزبتھ دوئم نے بریگزٹ بل کی توثیق کردی
ڈونلڈ ٹسک مذاکرات کی گائیڈلائنز کا مسودہ یورپی یونین کے دیگر 27 رکن ممالک کو 48 گھنٹوں کے اندر بھیج دیں گےجس کا مطلب یہ ہے کہ برطانیہ اور یورپی یونین کے درمیان مذاکرات کا آغاز مئی تک ہوگا۔
مئی تک ڈونلڈ ٹسک مذاکرات کی حتمی گائیڈ لائنز کی توثیق کے لیے 27 رکن ممالک کا سربراہ اجلاس بھی طلب کرلیں گے۔
16 مارچ کو برطانوی ملکہ الزبتھ دوئم نے بھی بریگزٹ سے متعلق پارلیمنٹ کے منظور کردہ بل کی توثیق کردی تھی۔
برطانوی پارلیمنٹ میں بھی ایک بل کی منظوری دی تھی جس کے تحت وزیراعظم تھریسا مے کو یہ اختیار دیا گیا ہے کہ وہ یوپی یونین کے لزبن معاہدے کے آرٹیکل 50 کو استعمال کرتے ہوئے برطانیہ کی علیحدگی کا عمل شروع کرسکیں۔
مزید پڑھیں: برطانیہ میں یورپی یونین سے علیحدگی کیلئے ریفرنڈم
خیال رہے کہ برطانیہ میں یورپی یونین میں رہنے کا نکل جانے کے حوالے سے گزشتہ برس 23 جون کو ریفرنڈم ہوا تھا جس میں بریگزٹ کے حق میں 52 جبکہ مخالفت میں 48 فیصد ووٹ پڑے تھے۔
یاد رہے کہ برطانیہ نے 1973 میں یورپین اکنامک کمیونٹی میں شمولیت اختیار کی تھی تاہم برطانیہ میں بعض حلقے مسلسل اس بات کی شکایات کرتے رہے ہیں کہ آزادانہ تجارت کے لیے قائم ہونے والی کمیونٹی کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا جارہا ہے جس کی وجہ سے رکن ممالک کی ملکی خودمختاری کو نقصان پہنچتا ہے۔
بریگزٹ کے حامیوں کا کہنا ہے کہ یورپی یونین سے علیحدگی کے بعد ابتداء میں معاشی مشکلات ضرور پیدا ہوں گی تاہم مستقبل میں اس کا فائدہ حاصل ہوگا کیوں کہ برطانیہ یورپی یونین کی قید سے آزاد ہوچکا ہوگا اور یورپی یونین کے بجٹ میں دیا جانے والا حصہ ملک میں خرچ ہوسکے گا۔