'کیا گستاخانہ مواد کی بندش میں عسکری اداروں کی مدد لی جائے؟'
اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) کی کارکردگی پر عدم اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ کیا ڈائریکٹر ایف آئی اے یہ چاہتے ہیں کہ گستاخانہ مواد کی بندش کے لیے عسکری اداروں سے مدد لی جائے۔
سوشل میڈیا پر گستاخانہ مواد کے حوالے سے کیس کی سماعت کرتے ہوئے اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے ڈائریکٹر ایف آئی اے سے استفسار کیا کہ ملزمان کو پکڑنے کے حوالے سے اب تک کیا پیش رفت ہوسکی؟
جس پر ڈائریکٹر ایف آئی اے جنرل مظہر کاکاخیل نے انہیں بتایا کہ ایف آئی اے فیس بک کے جواب کا انتظار میں ہے، متنازع اور گستاخانہ مواد کے حامل پیجز چلانے والے 70 افراد کی نشاندہی کی جاچکی ہے، جبکہ امریکا میں ہرجانے کا دعوی دائر کرنے کے لیے وکیل سے بھی مشورہ کرلیا گیا ہے۔
انھوں نے مزید بتایا کہ اس سلسلے میں انٹرپول کے سائبر ونگ سے بھی رابطہ کیا گیا ہے اور واشنگٹن میں ایک افسر کو مقرر کیا جاچکا ہے۔
جسٹس شوکت عزیز نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ 'ڈائریکٹر ایف آئی اے کہانیاں نہ سنائیں اور اس انتہائی حساس نوعیت کے معاملے پر پیش رفت سے آگاہ کریں'۔
یہ بھی پڑھیں: جسٹس شوکت صدیقی نے خود کو اوپن ٹرائل کیلئے پیش کردیا
اس موقع پر ایڈووکیٹ جنرل میاں عبد الرؤف نے عدالت کو بتایا کہ اس معاملے پر فیس بک انتظامیہ سے اعلیٰ سطح پر ملاقات ہوئی ہے۔
عدالت کا کہنا تھا کہ ملزمان کو ٹریس کرنے میں ایف آئی اے کی کارکردگی متاثر کن نہیں رہی اور ایجنسی اپنے کام کو سرانجام دینے میں ناکام ہو چکی ہے۔
ڈائریکٹر ایف آئی اے کو مخاطب کرتے ہوئے جسٹس شوکت عزیز صدیقی کا کہنا تھا کہ 'آپ یہ چاہتے ہیں کہ ہم آپ پر اعتماد چھوڑ کر عسکری اداروں سے مدد لیں؟ اس کیس میں پیسہ نہیں لیکن حضور پاک ﷺ کی شان تو ہے، ضروری ہے آپ وہی کیس کریں جس میں کوئی مفاد ہو'۔
ساتھ ہی عدالت نے ایڈووکیٹ جنرل کو انٹرسروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) کے اعلیٰ افسران کو تفتیش کے عمل میں شامل کرنے کی ہدایت بھی جاری کیں۔
آرٹیکل 19 کی مہم چلانے کی ہدایت
اسلام آباد ہائیکورٹ میں جاری کیس کی سماعت میں چیئرمین پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا) ابصار عالم بھی موجود تھے۔
عدالت نے ابصار عالم کو آئین کے آرٹیکل 19 کی مہم کا آغاز کرنے اور تمام پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کو اس کا پابند کرنے کا حکم دیا۔
مزید پڑھیں: گستاخانہ مواد: بلاک شدہ پیجز کے ریکارڈ کیلئے فیس بک سے رابطہ
جسٹس شوکت عزیز نے ہدایت دی کہ تمام پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا آزادی اظہارِ رائے میں اسلام کی عظمت اور پاکستان کی سالمیت کو ملحوظ خاطر رکھیں۔
جسٹس شوکت عزیز کا کہنا تھا کہ ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت ملک کے نوجوانوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے، اس صورتحال سے نمٹنے کے لیے ایک کمیٹی بنائی جائے جس میں چئیرمین پیمرا، ڈی جی ٹیکنیکل، وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی اور اطلاعات کے نمائندگان کو شامل کیا جائے۔
جسٹس شوکت عزیز نے ہدایات جاری کیں کہ یہ کمیٹی مارننگ شوز، ٹاک شوز اور ٹی وی پر چلنے والے دیگر مواد کا جائزہ لے۔
اس موقع پر عدالت نے چئیرمین پیمرا ابصار عالم سے استفسار کیا کہ کیا وہ اپنی فیملی کے ساتھ بیٹھ کر کوئی ٹی وی چینل دیکھ سکتے ہیں؟
ان کا مزید کہنا تھا کہ اگر آرٹیکل 19 کو پیمرا قوانین کا حصہ بنادیا جائے تو 6 سے 7 چینلز کا لائسنس معطل ہوجائے گا۔
چیئرمین ابصار عالم نے عدالت کو یقین دہانی کرائی کہ وہ انہیں ناامید نہیں کریں گے۔
ابصار عالم کا کہنا تھا کہ 'ہم نے ایک سال دو مہینے میں بہت محنت سے تمام انڈین چینلز بند کیے ہیں'۔
یہ بھی پڑھیں: سوشل میڈیا پرگستاخانہ مواد شائع کرنے والوں کا نام ای سی ایل میں ڈالنے کا حکم
جس پر شوکت عزیز نے کہا کہ 'فحاشی خواہ سعودی عرب سے آئے ترکی سے آئے یا انڈیا سے آئے، ہمیں اس کی ضرورت نہیں'۔
چیئرمین پیمرا نے عدالت کو بتایا کہ وہ جب کوئی پابندی لگاتے ہیں تو مذکورہ پروگرام، چینل، یا اینکر ہائی کورٹ سے حکم امتناع حاصل کرلیتا ہے۔
جسٹس شوکت عزیز نے کہا کہ اگر وہ ویلنٹائن ڈے کو رکوا سکتے ہیں تو کچھ بھی کر سکتے ہیں۔
بعدازاں کیس کی سماعت 22 مارچ تک کے لیے ملتوی کردی گئی۔
گذشتہ سماعتیں
یاد رہے کہ 14 مارچ کو ہونے والی کیس کی گذشتہ سماعت میں جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے کہا تھا کہ وہ اوپن ٹرائل کے لیے تیار ہیں، چاہے وہ قذافی اسٹیڈیم میں ہی کیوں نہ چلایا جائے۔
جسٹس شوکت عزیز نے اس تاثر کو مسترد کرنے کی کوشش کی تھی کہ وہ اس کیس کی سماعت سپریم جوڈیشل کونسل (ایس جے سی) میں اپنے خلاف زیر سماعت ریفرنس کی وجہ سے کر رہے ہیں۔
اس سے قبل 13 مارچ کی سماعت میں ڈائریکٹر ایف آئی اے نے عدالت کو آگاہ کیا تھا کہ وہ گستاخانہ مواد کی بندش کے لیے فیس بک سے رابطے میں ہیں۔
یہ بھی یاد رہے کہ سوشل میڈیا پر مبینہ گستاخانہ مواد کی تشہیر میں ملوث نامعلوم افراد کے خلاف مقدمہ درج کیا جاچکا ہے جبکہ 8 مارچ کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں ہونے والی کیس کی سماعت میں جسٹس شوکت عزیز صدیقی سوشل میڈیا پر گستاخانہ مواد شائع کرنے والوں کے نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) میں ڈالنے کا حکم بھی جاری کرچکے ہیں۔
تبصرے (1) بند ہیں