پردیس میں قید: حکومتی غفلت قابلِ افسوس ہے
یہ نہایت تشویش کی بات ہے کہ غیر ملکی جیلوں میں قید پاکستانی سلاخوں کے پیچھے اپنی زندگیاں گزار دیتے ہیں کیوں کہ ہماری حکومت ان کے حقوق کے تحفظ میں ناکام رہتی ہے۔
انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے بارے میں حکومت کی اس لاپرواہی سے اس وقت پردہ اٹھا جب لاہور ہائی کورٹ میں سعودی عرب میں قید پاکستانیوں کے اہلِ خانہ کی دائر کردہ درخواست کی سماعت ہوئی۔
سماعت کے دوران چیف جسٹس سید منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ حکومت نے "عرب ممالک میں مقیم پاکستانیوں کے بارے میں 'نو پالیسی' کی پالیسی اپنا رکھی ہے۔"
ان کا غصہ بجا ہے۔ حکومت نے غیر ملکی پاکستانیوں کے تحفظ کی پالیسی بنانے کے عدالتی احکامات کو باآسانی نظر انداز کر دیا تھا۔
ریاست کی جانب سے عدم توجہی کا یہ اظہار قابلِ افسوس ہے کیوں کہ اس کی ذمہ داری ہے کہ وہ غیر محفوظ اور غریب پاکستانیوں کی حفاظت کرے۔
وزارتِ خارجہ کے ڈیٹا کے مطابق ہزاروں پاکستانی شہری غیر ملکی جیلوں میں قید کاٹ رہے ہیں۔ سینیٹ کو گذشتہ سال بتایا گیا تھا کہ 2400 قیدی تو صرف سعودی عرب کے جیلوں میں بند ہیں۔ مانا جاتا ہے کہ اس وقت سے اب تک اس تعداد میں اضافہ ہوا ہوگا۔
اس کے علاوہ وکلاء کے مطابق دوسرے ملکوں میں ملازمتیں کرنے والے پاکستانی افراد مقامی ایجنٹوں کا پسندیدہ شکار ہوتے ہیں جو انہیں سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات میں منشیات لے جانے پر مجبور کرتے ہیں۔ اور اگر وہ پکڑے جائیں تو انہیں منشیات کی اسمگلنگ کے جرم میں سزائے موت دے دی جاتی ہے۔
قیدیوں کو سزائے موت دینے کے سعودی ریکارڈ کو دیکھتے ہوئے یہ ضروری ہے کہ حکومت مقامی مجرم ایجنٹوں کو سزا دے، تاکہ دوسرے ممالک میں ملازمت کے متلاشی افراد کو محفوظ رکھا جا سکے۔
پاکستانیوں کو مجرم ٹھہرانے اور سزائے موت دینے میں ملکی اور بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزیوں کے اطلاعات کی وجہ سے حکومت کو وہاں ضرور مداخلت کرنی چاہیے جہاں شہریوں کو سفارتی اور قانونی امداد درکار ہو۔
قونصل خانوں کا کام صرف قیدیوں کی معلومات اکٹھی کرنا نہیں، بلکہ یہ بھی یقینی بنانا ہے کہ قیدیوں کو شفاف ٹرائل کی سہولت میسر ہو۔
پاکستانی شہریوں کو دنیا بھر کے جیلوں میں سڑنے کے لیے اور ان کے گھر والوں کو سسکنے کے لیے چھوڑ دینا غیر انسانی ہے۔
یہ پاکستانی شہریوں کا حق ہے کہ جرم ثابت نہ ہونے تک انہیں معصوم سمجھا جائے، اور غیر ملکی قید میں ان کے ساتھ قانونی سلوک کیا جائے، بجائے اس کے کہ انہیں فوراً مجرم سمجھ لیا جائے، اور حکومت ان پر سے ہاتھ اٹھا دے۔
یہ اداریہ ڈان اخبار میں 16 مارچ 2017 کو شائع ہوا۔
تبصرے (1) بند ہیں