• KHI: Asr 5:03pm Maghrib 6:47pm
  • LHR: Asr 4:34pm Maghrib 6:21pm
  • ISB: Asr 4:40pm Maghrib 6:27pm
  • KHI: Asr 5:03pm Maghrib 6:47pm
  • LHR: Asr 4:34pm Maghrib 6:21pm
  • ISB: Asr 4:40pm Maghrib 6:27pm

آدھی آبادی تو ’نازک’ بنا رکھی ہے

شائع March 8, 2017

سائنس اور عقل یہی کہتی اور مانتی ہے کہ انسان کی 7 قیراط کی آنکھ جیسا طاقتور اور خطرناک ہتھیار اور کوئی نہیں، مگر دنیا کے کروڑوں انسانوں کا خیال ہے کہ آنکھ سے بھی زیادہ خطرناک ہتھیار عورت کا وجود ہے۔ لہٰذا ایمان اور سماجی اخلاق کا تقاضا ہے کہ 7 قراط کی آنکھ کو چند لمحوں کے لیے بند کرنے یا پھر کسی اور طرف موڑنے سے زیادہ اہم عورت کا خود کو ڈھانپ کر چلنا ہے۔

سماج میں بے راہ روی نہ پھیلے، فحاشی نہ بڑھے اور لوگ گناہوں اور جرائم میں مبتلا نہ ہوں، اس لیے دنیا کے تقریباً ہر ملک کے ہر سماج میں رہنے والے کچھ معزز اور پڑھے لکھے لوگ ہمیشہ اس کوشش میں مصروف رہتے ہیں کہ خواتین بے پردہ نہ گھومنے پائیں (یہاں بے پردہ سے ان معززین کی مراد خواتین کا وہ لباس ہے جو ان کے خیال میں کسی بھی طاقتور مرد کو گناہ اور جرم کرنے کی ترغیب دیتا ہے)۔

ایسا نہیں ہے کہ ایسے خیالات صرف تیسری دنیا کے پسماندہ اور قدامت پسند ممالک میں پائے جاتے ہیں، اس ذہنیت کے لوگ ترقی یافتہ اور قدرے روشن خیال اور سیکیولر ممالک میں بھی موجود ہیں۔ خواتین کے لیے مسائل اور مشکلات کرہءِ ارض کے ساتوں براعظموں کے زیادہ تر ممالک میں مختلف صورتوں میں موجود ہیں، جن درجن سے ڈیڑھ درجن ممالک میں خواتین کے لیے وہی مقام ہے جو اس دنیا کے سب سے ’معتبر’ ہستی مرد کے لیے ہے، وہاں بھی اگر مرد اور عورت کا معاملہ سامنے آئے تو بھی تھوڑی بہت ناانصافی خواتین کے ساتھ ہی ہوتی ہے۔

پڑھیے: تمام ذمہ داریاں نبھانے کے باوجود عورت 'نازک' کیوں؟

اس سارے بحث اور موضوع میں یہ بات یاد رہے کہ عورت پر مرد کو 'خوش قسمتی سے پیدائشی برتری اور فوقیت' حاصل ہے۔ لہٰذا یہ بات ذہن میں بٹھا دی جائے کہ یہ کبھی نہیں ہو سکتا کہ مرد و زن یکساں ہوں۔ میں اور میری بہن کبھی بھی یکساں سہولیات، یکساں آزادی اور یکساں مواقع کے مستحق نہیں ہو سکتے۔ جو میں خود کے لیے صحیح سمجھتا ہوں وہ میری بیوی کے لیے کیسے صحیح ہو سکتا ہے، بالآخر ان میں اور مجھ میں ایک بہت ہی غیر معمولی اور نمایاں فرق جو ٹھہرا جو مجھے محترم اور انہیں کم تر بناتا ہے۔

مختلف رپورٹس اور عالمی اداروں کے اندازوں کے مطابق دنیا کی نصف سے زائد آبادی ’صنفِ نازک’ پر مشتمل ہے، اور اللہ بھلا کرے اس شخص کا جس نے عورت کے لیے صنف نازک کا لفظ ایجاد کیا، یہ لفظ سنتے اور پڑھتے ہی ہمیں اپنی جسمانی ساخت جیسے ہی جسم رکھنے والے انسانوں پر رحم آنے لگتا ہے۔

ہمیں لگتا ہے کہ عورت ایک انسان سے ملتی جلتی ایک ایسی چیز ہے جسے ہمیشہ ہر کام اور ہر فیصلے کے لیے ایک مرد کی ضرورت ہوتی ہے مطلب کہ اسے تاحیات ایک مرد پر منحصر رہنا ہوتا ہے پھر چاہے وہ مرد 7 سالہ بچہ ہو یا پھر 70 سالہ بزرگ، مگر اس کے ایک عورت کے ساتھ ہونے کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ عورت محفوظ اور غلط کام سے دور ہے، ورنہ یہ خدشہ رہتا ہے کہ اکیلی چلتی پھرتی عورت کہیں بھی کچھ بھی کر سکتی ہے، اور اگر وہ خود کچھ نہ بھی کرے تو اس کے ساتھ کوئی نہ کوئی کچھ نہ کچھ ضرور کر لے گا۔

ایسا کیوں ہے کہ اگر ہم کسی لڑکی کو سگریٹ پیتا ہوا دیکھتے ہیں تو چند لمحوں کے لیے سہی یہ خیال آ جاتا ہے کہ یہ ایک عام اور روایتی لڑکی نہیں ہے، جی ہاں روایتی لڑکی، وہی لڑکی جو اپنے گھر سے نکل کر بس میں بیٹھتی ہے، جو پسینے میں شرابور ہو کر اس بس کی مخصوص سیٹوں پر اپنے وجود کو غلیظ اور بے ہودہ نظروں اور ہاتھوں سے بچاتے ہوئے سہمے ہوئے سفر کرتی ہے۔ اسے اپنا وجود معاشرے کی زنجیروں میں باندھ کر گھسیٹنا ہوتا ہے۔

اگر یہی سگریٹ ہم ایک نوجوان لڑکے کو پیتا ہوا دیکھ لیں تو ہم اس فعل کو ناپسند تو بھلے کریں، لیکن کوئی تعجب نہیں ہوتا، ہمارے ذہن میں یہ خیال نہیں آتا کہ یہ روایتی اور عام لڑکا نہیں ہے۔

ہماری سوچ صرف سگریٹ پینے تک محدود نہیں رہتی، ہم اگر بغیر آستینوں والی تنگ ٹی شرٹ پہنے ہوئی کسی لڑکی کو دیکھیں تو ہمارا ذہن بد تہذیبی اور بد اخلاقی کی تعریفیں تخلیق کرنا شروع کر دیتا ہے اور اگر یہی ٹی شرٹ ہم اپنے جیسے کسی لڑکے کو پہنتے ہوئے دیکھیں تو ہماری سوچ گہری نہیں ہوتی، ہمیں کوئی فرق نہیں پڑتا۔

مزید پڑھیے: عورت کے 'ناقص العقل' ہونے کی بحث

گرمیوں یا کسی اور وجہ سے اگر کوئی مرد مختصر کپڑے، مختصر ٹراؤز اور ڈھیلے کپڑے پہن کر سڑکوں اور بازاروں میں گھومے تو سماجی نظام اور مذہبی ہدایات خاموش رہتی ہیں، اور اگر کوئی عورت تھوڑے سے ڈھیلے یا مختصر کپڑے زیب تن کر لے تو سماجی نظام اور مذہبی معاملات جنوب سے مشرق ہو جاتے ہیں، بے راہ روی اور فحاشت پھیلنے لگتی ہے، طاقتور مرد پگھل کر قابل رحم بن جاتے ہیں۔

عورتوں کے لباس سے لے کر ان کی طرز زندگی تک کے تمام مسائل نہ صرف مردوں کے لیے قابل قبول نہیں ہوتے بلکہ یہ خود عورتوں کے لیے ناقابل برداشت ہوتے ہیں۔ پیدا ہوتے ہی ہماری خواتین اپنی بچیوں کی اس طرح پرورش کرتی کہ وہ براہ راست مرد کے برابر نہیں ہیں۔ وہ مرد جیسی آزادی، زندگی اور سہولیات حاصل نہیں کر سکتی۔

یہ سچ ہے کہ عورت کو ہمارے مذہب نے پردے کا حکم دیا ہے، مگر ساتھ ہی ہمارے مذہب نے مردوں کے لیے بھی پردے اور نظریں نیچے رکھنی کی ہدایات کی ہیں، مگر ہم دیگر معاملات کی طرح اس معاملے میں بھی مذہب کو اپنے فائدے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ ہم سب کی یہ سوچ ہے کہ بے شک ہر انسان کی حدود ہوتی ہیں، جن کے دائرے میں رہ کر انسان زندگی بسر کرتا ہے اور ہم سب کی سوچ میں عورتوں کی زندگی گزارنے کی حدود مرد کے مقابلے زیادہ ہی مختصر ہیں۔

خواتین کو غیرت اور عزت کے نام، جائیداد حاصل کرنے یا بدلہ لینے سمیت دیگر وجوہات کی بنا پر قتل کر دینا صرف پاکستان کا مسئلہ نہیں ہے، بلکہ یہ سلسلہ برطانیہ اور امریکا سمیت دیگر ترقی پذیر اور ترقی یافتہ ممالک میں بھی جاری ہے۔

ملک کی نصف سے زیادہ آبادی خواتین پر محیط ہے، ہر ملک کی ترقی کی رفتار اس کی افرادی قوت پر منحصر ہوتی ہے۔ ہم اپنے ملک کی غربت، تنزلی اور معاشی بدحالی کے نوحے تو جا بجا پڑھتے ہیں لیکن میرے بھائی اگر آدھی سے زائد آبادی کو ’نازک’ بنا کر رکھ دیا جائے تو اس میں خواتین ہی مرد ہی نہیں بلکہ پوری قوم کا نقصان ہے۔

ہمارے ملک میں اکثر آبادی متوسط اور نچلے طبقے سے تعلق رکھتی ہے۔ یہی وہ طبقات ہیں جن کی خواتین کو معاشرتی بندشوں کا سب سے زیادہ سامنا ہے، اور مرد تو دور کی بات پہلے پہل اس آبادی میں موجود خواتین کو پہلے تو اپنے ذاتی خیالات اور نظریات کو بدلنے کی اشد ضرورت ہے۔

جانیے: تم ایک چلغوزہ ہو

جب بھی کوئی لڑکی ترقی کرنا چاہتی ہے تو اس کی والدہ، پھوپھیاں، خالائیں، چاچیاں، تائیاں اور دیگر خواتین غیرت، شرم، عزت، روایات اور رواج کے نام پر اس کا راستہ روکنے میں پیش پیش ہوتی ہیں۔ عورتوں کی عورتوں سے یہ دشمنی درحقیقت مردوں کے نظریات ہیں، جن کا اظہار خاندان کی بڑی عورتوں کے ذریعے ہوتا ہے۔ اس چیز کا خاتمہ نہایت ضروری ہے، ورنہ عورتیں اپنی حقیقی آزادی کبھی حاصل نہیں کر سکیں گی۔

سماج کا انحصار حالات و واقعات پر ہونا چاہیے نہ کہ فرسودہ علاقائی، رواجی اور سماجی رسومات اور بندشوں پ۔، ایک بہتر سماج ایک صنف سے وجود میں نہیں آسکتا ہے۔ یہ وقت ہے کہ معاشرہ خواتین کو بندھی فرسودہ سوچ کی بھاری زنجیروں سے آزادی دے اور ان کے حقوق کے لیے پہلے خود خواتین اور پھر خود بھائی، بیٹا، باپ اور شوہر باہر نکلیں۔

یہی وقت و حالات کی ضرورت بھی ہے۔

ساگر سہندڑو

لکھاری ڈان ڈاٹ کام کے اسٹاف ممبر ہیں۔ ان کا ای میل ایڈریس sagarsuhindero@gmail.com ہے۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تبصرے (4) بند ہیں

عائشہ Mar 08, 2017 05:18pm
گریٹ : واقعی سماج کو کلی طور پر اپنے نظریات اور افکار کو اپ ڈیٹ کرنا ہوگا
ahmak adami Mar 08, 2017 07:34pm
ہماری سوچ صرف سگریٹ پینے تک محدود نہیں رہتی، ہم اگر بغیر آستینوں والی تنگ ٹی شرٹ پہنے ہوئی کسی لڑکی کو دیکھیں تو ہمارا ذہن بد تہذیبی اور بد اخلاقی کی تعریفیں تخلیق کرنا شروع کر دیتا ہےyou are not clear about what you wrote my friend you are mixing many things.
سلیم اللہ صدیقی Mar 08, 2017 07:32pm
ہمارے معاشرے کی ایک اور دکھتی رگ جس پر نامعلوم کتنے عرصے مزیدرونا پڑے گا۔
Malik Mar 08, 2017 08:53pm
Food for thought.. behtreen tehreer..

کارٹون

کارٹون : 30 مارچ 2025
کارٹون : 29 مارچ 2025