• KHI: Asr 4:13pm Maghrib 5:49pm
  • LHR: Asr 3:27pm Maghrib 5:05pm
  • ISB: Asr 3:27pm Maghrib 5:05pm
  • KHI: Asr 4:13pm Maghrib 5:49pm
  • LHR: Asr 3:27pm Maghrib 5:05pm
  • ISB: Asr 3:27pm Maghrib 5:05pm

سپریم کورٹ کی عامر لیاقت کو پروگرام کرنے کی مشروط اجازت

شائع March 6, 2017

اسلام آباد: چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے بول ٹی وی پر اینکر عامرلیاقت حیسن کوپروگرام کرنے کی مشروط اجازت دیدی۔

عدالت نے ہدایت کی ہے کہ پروگرام میں ایسا کوئی مواد نشر نہیں ہوگا جو منافرت پر مبنی ہو، ہر پروگرام کی ویڈیو اور اس کا مکمل متن ایڈیشنل رجسٹرار جوڈیشل کے دفتر میں جمع کرانا ہوگا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ اب عدالتی حکم کی خلاف ہوئی تو اس کے نتائج سنگین ہوں گے۔

پیرکو سپریم کورٹ کے بینچ نے عامرلیاقت کے پروگرام کی بحالی کے اسلام آباد ہائیکورٹ کے فیصلے کے خلاف پاکستان الیکٹرانک میڈیا اتھارٹی (پیمرا) کی اپیل کی سماعت کی۔

یہ بھی پڑھیں: حکم امتناع واپس، 'ایسے نہیں چلے گا' پر پابندی برقرار

پیمرا کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ پروگرام پر پابندی سپریم کورٹ نے لگائی تھی، اسلام آباد ہائیکورٹ کوپروگرام کی بحالی کا حکم جاری کرنے کا اختیار نہیں تھا۔

اس موقع پر عامرلیاقت نے عدالت کو بتایاکہ سپریم کورٹ نے جب حکم دیا تھا اس وقت کیس میں مجھے فریق نہیں بنایا گیا تھا، وہ حکم ٹی وی چینل کیلئے تھا اس لیے اسلام آباد ہائیکورٹ نے پروگرام بحال کیا۔

عدالت میں موجود چیئرمین پیمرا ابصار عالم نے عدالت کو بتایا کہ عامرلیاقت پروگرام کے ذریعے منافرت پھیلا رہے ہیں، پیمرا شکایات پر نوٹس لیتا ہے تو یہ ہمیں بھی غدار اور توہین مذہب کا مرتکب قرار دیتے ہیں۔

یہ سن کرچیف جسٹس نے کہاکہ ’ہم انتباہی ہدایات جاری کرکے پروگرام بحال کرنے کی اجازت دیتے ہیں اس دوران پیمرا کی شکایات کونسل اپنی کارروائی مکمل کرے‘۔

مزید پڑھیں: 'ایسے نہیں چلے گا': عامر لیاقت پر پابندی عائد

پیمرا کے چیئرمین ابصار عالم نے مزید کہا کہ عامرلیاقت عدالتی احکامات کی پروا نہیں کرتے، پہلے بھی سپریم کورٹ نے پروگرام روکنے کا حکم دیاتھا، انہوں نے ہائیکورٹ سے اجازت لے کر پروگرام کرلیا تھا۔

چیف جسٹس نے کہا ہم بیان حلفی لے کر پروگرام کی اجازت دیں گے جس پر عامرلیاقت نے کہا کہ وہ حلفیہ بیان دینے کے لیے تیار ہیں۔

بینچ میں شامل جسٹس مقبول باقر نے کہا کہ اگر سپریم کورٹ کے حکم کی خلاف ورزی کی گئی تو نتائج زیادہ سنگین ہوں گے۔ چیف جسٹس نے کہا یہ اچھا موقع ہے کہ ہم اس مقدمے میں پیمرا کے قوانین کی تشریح کرسکیں گے، پیمرا قانون کی مختلف شقوں کی تشریح نہیں ہوسکی ہے۔

پیمرا کے وکیل نے کہا پروگرام کرنے کی اجازت دینے سے غلط پیغام جائے گا کیونکہ بہت سے عام لوگوں کے خلاف عامرلیاقت نے بات کی ہے ان کی زندگیوں کو بھی خطرات لاحق ہوسکتے ہیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ پروگرام کی مشروط بحالی کی اجازت کے بعد ہم قانون کے مطابق فیصلہ کریں گے، یہ عبوری نوعیت کی کارروائی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: عامر لیاقت کیخلاف ’ہتک آمیز‘ مہم چلانے کی شکایت

جسٹس اعجازالحسن نے کہا کہ پیمرا کی شکایات کونسل عامرلیاقت کے خلاف آنے والی شکایتوں پر کارروائی کرکے معاملہ نمٹائے۔

پیمرا کے چیئرمین نے کہا کہ عامرلیاقت ریاست کے اداروں پر حملے کرتے ہیں، پیمرا کے نوٹس کاجواب نہیں دیتے۔

اس کے جواب میں عامرلیاقت نے کہا کہ پیمرا والے مختلف چیزوں کو ملارہے ہیں،یہ حقائق کو درست طورپر بیان نہیں کررہے ۔

چیف جسٹس نے کہا کہ، عامر، کیا آپ کو ہر بات میں ضرور بولنا ہے؟ ہمیں معاملہ دیکھ لینے دیں جس پر عامرلیاقت نے عدالت میں معذرت کی۔

جسٹس اعجازالحسن نے کہا کہ اگر سپریم کورٹ منافرت پر مبنی گفتگو کو روکتے ہوئے پروگرام جاری رکھنے کی اجازت دیتی ہے تو مسئلہ کیاہے؟

انہوں نے کہا کہ پیمرا شکایات پرایک ہفتے میں کارروائی کرلے، اگر پیمرا یہ چاہتاہے کہ عامرلیاقت ٹی وی پر ہی نہ آئیں تو یہ درست نہیں کیونکہ اظہار رائے کی آزادی بنیادی حق ہے، ہم نے اظہار رائے کی آزادی اور منافرت پھیلانے کو روکنے میں توازن قائم کرناہے اور پیمرا کو بھی اپنا کام کرنے دیناہے۔

پیمرا کے وکیل نے کہا کہ عامرلیاقت کے پروگرام سے عام لوگوں میں اشتعال پھیلتا ہے۔

چیف جسٹس نے کہا ہم عامرلیاقت کے پروگرام کے مواد کے علاوہ ان کی باڈی لینگویج اور اشاروں کو بھی دیکھیں گے۔

مزید پڑھیں: بول نیوز کی عامر لیاقت کا پروگرام نشر نہ کرنے کی یقین دہانی

جسٹس اعجازالحسن نے عامر لیاقت کو مخاطب کرکے کہا کہ آپ کو جوش خطابت کو بھی کنٹرول کرنا ہوگا۔

اس پرعامرلیاقت نے کہا کہ 'پیمرا میری زبان بندی چاہتا ہے، یہ میرا گلہ دبارہے ہیں، یہ مجھ پر تاحیات پابندی لگادیں تاکہ باہر نہاری کا ٹھیلہ لگادوں'۔

جسٹس مقبول باقر نے کہا کہ 'میں ذرا کھل کر بول رہاہوں کہ اگر سپریم کورٹ کے حکم کی خلاف ورزی ہوئی تو پھر آپ کو یہی کام کرنا پڑے گا جو آپ کہہ رہے ہیں'۔

چیف جسٹس ثاقب نثار بولے، گزارش یہ ہے کہ اگر ایسا کیا گیا تو پھر ٹھیلہ باہر نہیں لگے گا (یعنی جیل میں لگے گا)۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ہمیں اپنے اداروں پر اعتماد کرناہوگا، ادارے مضبوط ہوں گے تو لوگوں کے حقوق کا تحفظ ہوگا، اداروں کو مضبوط کریں، اس ملک کو مضبوط کریں،اپنا سودا بیچنے کیلئےمعاشرے کا توازن ختم نہ کریں۔

جسٹس مقبول باقر نے عامرلیاقت کو مخاطب کرکے کہاکہ اگر آپ کی گفتگو سے خوف پھیل رہا ہے تو دوسروں کے تحفظ کے لیے اس کا بھی خیال کریں۔

عامرلیاقت نے کہا کہ 'کچھ لوگ فوجیوں کو قاتل کہتے ہیں تو میں ان کے ہی کلپ اپنے پروگرام میں چلاتاہوں تب جواب دیتاہوں'۔

چیف جسٹس نے کہا کہ براہ کرام، میری عدالت میں ایسی بات نہ کریں، جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ اگر آپ کو کسی شخص سے شکایت ہے تو متعلقہ ادارے سے اس کے خلاف رجوع کریں۔

جسٹس مقبول باقر نے کہا کہ ایسے لوگوں کو باز رکھناآپ کا نہیں، اداروں کاکام ہے، چیف جسٹس نے کہا کہ یہ فیصلہ سپریم کورٹ کرے گی کہ کون سا مواد نشر ہوسکتا ہے اور پیمرا کے پاس کس حد تک اختیار ہے اور عدالت نے کب مداخلت کرنی ہے اور کب نہیں۔

عدالت نے پیمرا میں جمع کرائی گئیں شکایات عامرلیاقت کے حوالے کرتے ہوئے انہیں شکایات کونسل کو تین دن میں تحریری جواب جمع کرانے کی ہدایت کی جبکہ جمعہ کے روز پیمرا کی شکایات کونسل ملک بھر سے آنے والی شکایتوں پر اسلام آباد میں عامرلیاقت کا جواب دیکھنے کے بعد فیصلہ جاری کرنے کی مجاز ہوگی۔


کارٹون

کارٹون : 23 دسمبر 2024
کارٹون : 22 دسمبر 2024