• KHI: Maghrib 5:42pm Isha 7:02pm
  • LHR: Maghrib 4:59pm Isha 6:25pm
  • ISB: Maghrib 5:00pm Isha 6:28pm
  • KHI: Maghrib 5:42pm Isha 7:02pm
  • LHR: Maghrib 4:59pm Isha 6:25pm
  • ISB: Maghrib 5:00pm Isha 6:28pm

سیہون حملے کے وقت درگاہ پر نفری کم تھی، وزیراعلیٰ سندھ کا اعتراف

شائع March 6, 2017

کراچی: وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے سانحہ سیہون پر پالیسی بیان دیتے ہوئے ایک طرف جہاں دہشت گرد حملے کے بعد صوبائی حکومت پر سیکیورٹی کے حوالے سے ہونے والی تنقید پر شکوہ کیا، وہیں اس بات کا بھی اعتراف کیا کہ درگاہ پر پولیس کی نفری کم تھی۔

سندھ اسمبلی میں پالیسی بیان دیتے ہوئے انھوں نے اعتراف کیا کہ حملے کے وقت درگاہ پر پولیس کی نفری کم تھی، مراد علی شاہ نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ ایک 'وی وی آئی پی' شخصیت علاقے میں تعینات پولیس اہلکاروں کو حملے سے آدھے گھنٹے قبل اپنے ساتھ لے گئی تھی، تاہم انھوں نے مذکورہ شخصیت کا نام لینے سے گریز کیا۔

وزیراعلیٰ سندھ نے دہشت گرد حملے کے بعد صوبائی حکومت پر ہونے والی تنقید کے حوالے سے بظاہر شکوہ کرتے ہوئے کہا کہ 'وہ وقت مدد کرنے کا تھا'، لیکن سب نے تنقید کی بوچھاڑ کردی۔

مزید پڑھیں:درگاہ لعل شہباز قلندر میں خودکش دھماکا

وزیراعلیٰ سندھ نے بتایا کہ '16 فروری کو شام 7 بجے حملہ ہوا، میں ایک تقریب میں موجود تھا، جب مجھے اطلاع ملی'۔

انھوں نے بتایا کہ 'میں اسی وقت سیہون جانا چاہتا تھا، لیکن مجھے بتایا گیا کہ سڑک کی تعمیرکے باعث ابھی جانا مناسب نہیں، میں رات 12 بجے کے قریب سیہون پہنچا اور سیدھا ہسپتال گیا، اس وقت وہاں 25 کے قریب ایمبولینسیں موجود تھیں اور سیہون ہسپتال میں چیزیں 'اطمینان بخش' تھیں'۔

وزیراعلیٰ سندھ کا کہنا تھا کہ سیہون کے لوگوں نے اپنی مدد آپ کے تحت ذاتی گاڑیوں میں جاں بحق اور زخمی افراد کو ہسپتال پہنچایا اور وہاں جو بھی دستیاب ڈاکٹرز تھے، وہ آدھے گھنٹے میں پہنچ گئے۔

مراد علی شاہ نے سیہون میں ہسپتال اور ایمبولینسز کی کمی کے حوالے سے ہونے والی تنقید کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ 'سیہون میں 50 بستروں کا ہسپتال کئی دہائیوں سے موجود ہے، جس وقت حملہ ہوا، وہاں 8 ایمبولینسیں موجود تھیں جو 15 منٹ میں پہنچ گئیں، ظاہر ہے سیہون تحصیل کے ہسپتال میں 500 ایمبولینسز تو نہیں ہوسکتی'۔

یہ بھی پڑھیں:سیہون میں سیکیورٹی صوبائی حکومت کی ذمہ داری تھی، وزیرداخلہ

وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ 'اتنا بڑا واقعہ اگر کراچی میں ہوتا تو یہاں بھی کرائسز کی صورتحال ہوتی، سیہون تو پھر بہت چھوٹا سا شہر ہے'۔

مراد علی شاہ نے بتایا کہ سانحہ سیہون میں 81 افراد جاں بحق ہوئے، جن میں 46 مرد، 10 خواتین اور 15 سال سے کم عمر کے 25 بچے شامل ہیں، جبکہ کُل 383 افراد زخمی ہوئے، جن میں سے صرف 10 ابھی تک زیر علاج ہیں جبکہ باقی 373 کو ڈسچارج کیا جاچکا ہے۔

دہشت گردوں کی شناخت

مراد علی شاہ نے بتایا کہ سیہون میں لعل شہباز قلندر کے مزار پر حملہ کرنے والے خود کش بمبار کے ساتھ 3 سہولت کاروں کی نشاندہی بھی کی جاچکی ہے، جن کا ریکارڈ شناخت کے لیے نیشنل ڈیٹا بیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی (نادرا) کو بھجوایا جاچکا ہے۔

ان کا کہنا تھا، 'ہم نے ان ہی کیمروں کی مدد سے دہشت گردوں کی شناخت کی، جن کے بارے میں کہا جارہا تھا کہ وہ ناکارہ ہیں'۔

تاہم ان کا کہنا تھا کہ علاقے میں لوڈ شیڈنگ کی وجہ سے جنریٹرز چل رہے تھے اور وولٹیج کم ہونے کی وجہ سے سی سی ٹی وی کیمروں کی ریزولوشن کچھ اچھی نہیں تھی'۔

مزید پڑھیں: سیہون دھماکا: ’ناکارہ سی سی ٹی وی کیمروں سے ہی اہم شواہد ملے‘

واضح رہے کہ گذشتہ دنوں وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے لعل شہباز قلندر کے مزار پر ہونے والے خودکش دھماکے پر سندھ حکومت کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا تھا کہ سیہون میں سیکیورٹی وفاقی نہیں صوبائی حکومت کی ذمہ داری تھی۔

چوہدری نثار نے کہا کہ سیہون خودکش حملے کے بعد ہونے والے اجلاس میں ہمیں صرف یہ بریفنگ دی گئی کہ دھماکے میں کتنے لوگ ہلاک اور زخمی ہوئے اور انھیں کہاں منتقل کیا گیا۔

وزیر داخلہ نے مزید بتایا کہ 'جب میں نے سندھ کے چیف سیکریٹری سے سیکیورٹی لیپس کے حوالے سے سوال کیا تو ان کے پاس اس کا کوئی جواب نہیں تھا، پھر آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے بھی اس حوالے سے سوال کیا'۔

چوہدری نثار نے سوال کیا کہ 'کیا ہماری وجہ سے وہاں واک تھرو گیٹس فعال نہیں تھے یا بجلی نہ ہونے کے ذمہ دار بھی ہم تھے؟'

یہ بھی پڑھیں:درگاہ لعل شہباز قلندر کی ’بجلی‘ پر سندھ اور وفاق میں جھگڑا

دوسری جانب گذشتہ ہفتے درگاہ لعل شہباز قلندر کی 'بجلی' پر بھی وفاق اور سندھ حکومت کے درمیان جھگڑا سامنے آیا تھا۔

وفاقی وزارت پانی و بجلی نے الزام عائد کیا تھا کہ درگاہ کی بجلی چوری کرکے چلائی جا رہی ہے، جب کہ سندھ کی وزارت اوقاف نے ان الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ بجلی کی بل کی مد میں حیدرآباد الیکٹرک سپلائی کمپنی (حیسکو) کو ماہانہ لاکھوں روپے ادا کیے جاتے ہیں۔

یاد رہے کہ گذشتہ ماہ 16 فروری کو سندھ کے شہر سیہون میں واقع لعل شہباز قلندر کی درگاہ پر خودکش دھماکے کے نتیجے میں 80 سے زائد افراد جاں بحق جبکہ 200 سے زائد زخمی ہوئے، اس دھماکے کی ذمہ داری کالعدم تنظیم جماعت الاحرار نے قبول کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔

کارٹون

کارٹون : 27 نومبر 2024
کارٹون : 26 نومبر 2024