• KHI: Zuhr 12:16pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 11:46am Asr 3:33pm
  • ISB: Zuhr 11:51am Asr 3:34pm
  • KHI: Zuhr 12:16pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 11:46am Asr 3:33pm
  • ISB: Zuhr 11:51am Asr 3:34pm

جنسی تعلیم اور ہمارے دوغلے رویے

شائع March 3, 2017 اپ ڈیٹ March 4, 2017

گزشتہ دنوں کا ذکر ہے، میرا 14 سالہ بیٹا میرے ساتھ بیٹھا ٹی وی دیکھ رہا تھا۔ جب ٹی وی پر خاندانی منصوبہ بندی سے متعلق اشتہار چلا تو میں نے عادتاً چینل تبدیل کر دیا۔ اس نے بھی قصداً یوں ظاہر کیا جیسے کچھ دیکھا نہ ہو۔

کچھ دنوں بعد ایسا ہی ایک واقعہ اس وقت پیش آیا جب میری آٹھ سالہ بیٹی نے خواتین کے سینیٹری پیڈز کا اشتہار دیکھنے کے بعد معصومیت سے پوچھا، "امی یہ کس چیز کا اشتہار ہے۔" ساری لڑکیاں کیوں کلاس میں خوشی سے گا رہی ہیں۔ اس سے پہلے کہ میں کوئی جواب دیتی، میری والدہ نے بات بنائی، "فضول سوال نہیں کرتے، چپ کر کے اپنا پروگرام دیکھو۔"

جس معاشرے کے ہم پروردہ ہیں، وہاں جنس، بلوغت اور اس سے متعلق آگاہی دینا معیوب بات سمجھی جاتی ہے۔ تعلیمی اداروں میں بچوں اور نوجوان نسل کو ان کے جسم میں رونما ہونے والی فطری تبدیلیوں کے بارے میں بتدریج درست معلومات دینا تو کجا، ہم تو اپنے گھر اور خاندان میں بھی ان بنیادی موضوعات پر بات کرنے سے کتراتے ہیں۔

جب بچے بلوغت کی عمر کو پہنچتے ہیں اور ان کے جسم کے اندر مختلف تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں تو اس حوالے سے تجسس پیدا ہونا فطری عمل ہے۔ ایسے میں والدین کا دقیانوسی رویہ، روایتی اساتذہ اور نصاب، بچوں کے اس تجسس کو مزید ہوا دیتے ہیں۔

پڑھیے: 'فحاشی کے خلاف 'جنگ

ایسے میں زیادہ تر بچے غیر معیاری مواد، عریاں فلموں اور فحش ویڈیوز کی طرف مائل ہوتے ہیں اور مزید ذہنی خلفشار اور جذباتی ہیجان کا شکار ہو جاتے ہیں۔ اس حوالے سے جب نوجوانوں سے بات ہوئی تو دلچسپ انکشافات سامنے آئے۔

30 سالہ ٭صائمہ نے بتایا کہ لڑکپن سے پھوپھی امی نے یہ خوف دل میں بٹھا دیا تھا کہ اچھی لڑکیاں فضول سوال نہیں کرتیں، پس ان کی ہدایت کے مطابق میں ہر لمس، ہر انس سے شاکی رہتی۔ اس فوبیا کی وجہ اماں کی مبہم ہدایت بھی تھی کہ باحیا لڑکیاں کسی کو پاس پھٹکنے نہیں دیتیں ورنہ سزا کے طور پر بچہ پالنا پڑتا ہے۔

اس فوبیا کی شکار صائمہ کی خانگی زندگی بری طرح متاثر ہوئی اور وہ آج تک اپنے شوہر کے ساتھ ایک خوشگوار ازدواجی رشتہ استوار نہ کر سکیں، البتہ وہ اپنے بچوں کو اس حوالے سے بہتر اور حقیقت پسندانہ تعلیم دینے کی خواہاں ہیں تاکہ ان کے بچے ایک نارمل زندگی گزار سکیں۔

28 سالہ ٭سمیر کے اس حوالے سے تجربات مزید تلخ ہیں۔ والد کی بے جا سختی، اور والدہ کی پردہ پوشی نے انہیں باغی اور گھر سے دور کر دیا۔ اوباش دوستوں کی صحبت میں سمیر نے خوشی اور تسکین کی تلاش میں محلوں اور بازاروں کا رخ کیا اور جسمانی طاقت کے لیے مقوی ادویات کا۔ آج ایک مقامی ہسپتال میں ایڈز میں مبتلا وہ اپنی زندگی کی جنگ لڑ رہے ہیں اور اپنے والدین کو اپنی اور اپنے جیسے دیگر نوجوانوں کی تباہی کا ذمہ دار سمجھتے ہیں۔

انٹرنیٹ اور موبائل کے اس دور میں جب ہمارے نوجوان ایک انگلی کی جنبش پر دنیا سے جڑے ہیں اور ہر قسم کے گرے اور بلیو لٹریچر تک بلا امتیاز رسائی رکھتے ہیں، ہم اسی بحث میں الجھے ہوئے ہیں کہ آیا اپنے بچوں کو بلوغت اور جنس سے متعلق تعلیم دی جائے یا نہیں، یا انہیں محض وقت اور زمانے کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا جائے۔

گزشتہ دنوں ایک مقامی چینل پر مارننگ شو میں ایک معروف اینکر کی معیت میں دو مولوی حضرات اس بات پر نوحہ کناں تھے کہ چھٹی اور ساتویں جماعتوں کی سائنسی درسی کتب میں نظام تولید، اعضائے تولید اور جنس سے متعلق اسباق شامل ہیں جو سراسر آئین اور نظریہء پاکستان کی توہین اور فحاشی پھیلانے کے مترادف ہے۔

پڑھیے: مدد کی طلب

یہاں بحث یہ تو ہو سکتی ہے کہ یہ تعلیم بچوں اور نوجوانوں کو کس عمر میں، کس زبان میں، کہاں اور کیسے دی جائے، ان میں کن اخلاقی، لغوی اور تہذیبی پیچیدگیوں کا خیال رکھا جائے، لیکن اس بات پر کوئی دو رائے نہیں کہ جنسی صحت اور بلوغت سے متعلق بروقت اور مکمل آگاہی بچوں اور نوجوانوں کو باشعور اور محتاط بناتی ہے اور بے راہ روی سے دور رکھتی ہے۔ اس میں نظریہءِ پاکستان کی خلاف ورزی کہاں ہے؟

جب بھی یہ نکتہ اٹھایا جاتا ہے تو ہمارے ہاں قدامت پسند طبقے کو پرانے زمانے کی 'اخلاقی اقدار' یاد آ جاتی ہیں کہ کس طرح گھر میں ان مسائل پر بات چیت کرنا نہایت معیوب سمجھا جاتا تھا۔ مگر قدامت پسند افراد یہ بھول جاتے ہیں کہ اس زمانے میں ان چیزوں پر بات بھلے نہ کی جاتی ہو مگر بارہ تیرہ سال کے بچوں اور بچیوں کی شادی کروا کر انہیں براہِ راست عملی زندگی میں ضرور دھکیل دیا جاتا تھا۔ کیا بچوں سے ان کی بلوغت اور اس سے متعلقہ مسائل و نکات پر بات کرنا نابالغ بچوں کی شادی کروا دینے سے بھی زیادہ غلط کام ہے؟

ستم تو یہ ہے کہ شادی کے موقع پر لاکھوں روپے محض نمود و نمائش اور دکھاوے پر خرچ کیے جاتے ہیں، لیکن اس تمام تر اہتمام میں ازدواجی رشتے میں بندھنے والے جوڑے کی آگاہی اور شعوری تعلیم محض کتابی مفروضوں، فلمی قصوں اور دوستوں کے ناقص مشوروں تک محدود ہوتی ہے۔

نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ اکژ شادی شدہ جوڑے ابتدا ہی سے بے جا توقعات کے باعث جذباتی ناآسودگی اور خلفشار کا شکار رہتے ہیں اور ایک دیرپا رشتہ استوار نہیں کر پاتے۔

جن لوگوں کو اس تعلیم و آگہی میں حیا باختگی نظر آتی ہے، کیا وہ انسان نہیں ہیں یا اعضائے تولید و جنسی مسائل سے ان کا کبھی واسطہ نہیں پڑا؟ آخر ایسا کیوں ہے کہ ہم اپنے بچوں کو سگریٹ اور شراب کے نقصانات بیماریوں کے نام لے لے کر گنواتے ہیں تاکہ وہ ان سے باز رہیں، مگر جنسی مسائل کی بات آتے ہی سب کو سانپ سونگھ جاتا ہے۔

پوچھا جانا چاہیے کہ کیا بچوں کو سگریٹ کے نقصانات بتانے سے بچے نشے کی لت میں مبتلا ہوجاتے ہیں یا نہ بتائے جانے سے؟ عقل تو یہ کہتی ہے کہ نہ بتانے سے۔ تو یہی کلیہ جنسی مسائل کی تعلیم پر بھی لاگو ہوتا ہے۔

غرض یہ کہ بحیثیت معاشرہ ہم نے بہت سے دیگر معاملات کی طرح، جنس، بلوغت اور انسانی تخلیق سے متعلق اہم اور فطری موضوعات کو بھی اپنی قدامت پسندی اور لاعلمیت کی وجہ سے شجرِ ممنوعہ قرار دے دیا ہے اور اس حوالے سے مکالمے کو فحش، تعلیم کو غیر ضروری اور جبلی تجسس کو گناہ کا نام دے کر اس کے جملہ حقوق اشتہاری، بازاری اور مذہبی ٹھیکیداروں کو دے دیے۔ نتیجہ ہمارے سامنے ہے۔


*شناخت کے تحفظ کے لیے نام تبدیل کر دیے گئے ہیں۔

ڈاکٹر ارم حفیظ

ڈاکٹر ارم حفیظ کراچی کی معروف نجی یونیورسٹی کے میڈیا اسٹڈیز شعبے میں ایسوسی ایٹ پروفیسر ہیں۔ ڈاکٹر ارم نے جامعہ کراچی کے شعبہ ماس کمیونیکیشن سے پی ایچ ڈی کی ڈگری بھی حاصل کی ہے۔ ان کا ای میل ایڈریس [email protected] ہے۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

تبصرے (18) بند ہیں

ahmak adami Mar 03, 2017 01:16pm
دو مولوی حضرات اس بات پر نوحہ کناں تھے کہ چھٹی اور ساتویں جماعتوں کی سائنسی درسی کتب میں نظام تولید، اعضائے تولید اور جنس سے متعلق اسباق شامل ہیں جو سراسر آئین اور نظریہء پاکستان کی توہین اور فحاشی پھیلانے کے مترادف ہے۔what is problem in giving information about sex health to male and female childs?
Muhammad abid bhatti Mar 03, 2017 03:56pm
میرے خیال میں اس کی ایک وجہ دین سے دوری بھی ہے۔ جو کہ آپ کو بتاتا ہےکہ ایک خاص عمر کے بعد بچوں کےلئے الگ بستر کا انتظام کیا جائے، جو کہ قرآن و احادیث میں واضح طور پر آپ کو ان معاملات کی تعلیم دیتا ہے ۔ ہم بڑے شوق سے اپنے بچوں کے ختم قرآن کی خوشیاں مناتے ہیں۔ مگر مناسب وقت پر ان کی ان مسائل کے بارے میں معلومات تک رسائی کے راستے بھی خود ہی بند کرتے ہیں۔ مصنفہ نے درست لکھا کہ جنسی تعلیم کے لئے جب بچے خود اپنی راہ چننا شروع کردیتے ہیں (جوکہ عموماً غلط سمت میں ہوتی ہے) تو ہم ہی اپنی جانب دیکھے بغیر معاشرہ کہ اس کا ذمہ دار بنا دیتے ہیں۔اس ضمن میں مغربی معاشرہ کی اندھی تقلید بھی درست نہیں جو کہ خو اپنے خاندانی نظام کی تباہی پر گریہ گر ہے۔ کوئی بات اگر بری لگے تو معذرت۔ شکریہ
Ahsan Mar 03, 2017 05:29pm
Dear ye theek hy k btaya jay mgr sharm o haya ko malhooz rakh k >jaisy moms hmaisha apni betion ko haya ki tarbiyyt diati rahin or sath m jinsi moamlaat bhi kia ab sy pehly jinsi tarbiyyt ka nizam nhi tha....tha mgr socity my gunah ki dawat shaid is tarha nhi thi...... >class room m is ko slabs bnany ki bjay individualy waledain is ki tarbiyyt dy...ziada behtr hy >Burai k asbab ko hm sirf jinsi tarbiyyt k zariy km nhi kr sakty ........us k liy jo proper system hy us ko hi apnana ho ga....jb blue films ki bharmar kr di jay....sex or porn data phila dya jy for development of corporate culture .....tb kaisi faqt hm jinsi tarbiyyt k zariay new generation ko buraiii sy bacha sakty hy
Abdullah Malik Mar 03, 2017 05:35pm
اس تحریر کی کوئی ثانی نہیں آئے رو ز ہمارے نوجوان ان مسائل سے دو چار ہوتے ہیں مگر جنسی مسائل پر وہ نالائق حکیموں اور دو نمبرز ڈاکٹرز کی طرف رجوع کرتے ہیں جن کی وجہ سے وہ مزید نفسیاتی پیچیدگیوں کا شکار ہوجاتے ہیں۔ ہمارے ملک میں بد قسمتی سے نہ تو نصاب میں یہ چیزیں شامل ہے اور نہ ہر علاقے میں ایسے نفسیاتی معالج موجود ہے جو بچوں کی راہنمائی کرسکے۔ سیکس تعلیم نہ ہونے کی وجہ سے بچے اور بچیاں جنسی درنگی کا نشانہ بنتے ہیں جو سراسر ظلم ہے۔ میڈیکل اور مذہب الگ الگ شعبے ہیں لھذا دین کو میڈیکل سے مت جوڑئے۔ ہمارے مساجد میں تو روز گھنٹوں گھنٹوں درسیں ہوتی ہے لوگوں نے بڑی داڑھیاں رکھی ہے پھر کیوں ہمارے بچوں کو مساجد اور سکولوں میں جنسی درندگی کا نشانہ بنایا جاتا ہے وجہ یہی ہے کہ ہمارے بچوں کے پاس سیکس تعلیم نہیں ہے جو لوگ اس کو غلط سمجھتے ہیں دراصل وہ اس قبیح فعل میں ملوچ ہے اور وہ نہیں چاہتے کہ اُن کا کاروبار بند ہوجائے۔
amjad Mar 03, 2017 06:51pm
محترمہ آپ کا بلاگ اچھے عنوان پر ہے لیکن آپ مجھے یہ بتائیں کہ مردوں کو قریب نا پھٹکنے دینے والی صائمہ کی زندگی اجیرن کیسے؟؟؟ وہ اگر اپنے بچوں کو اچھی تربیت دے رہی ہے تو کیا وہ یہ ہے کہ جس کو چاہے پاس آنے دو کوئی مسئلہ نہیں ہے اس سے وہ خوش ہے ؟؟؟؟ والد کی بے جا سختی کے باوجود سمیر بگڑ گیا اور غلط چکروں میں پڑ کر ایڈز کا شکار ہے تو کیا اس میں قصور اس بات کا ہے کہ اس کو روکا گیا ہے ؟؟؟؟ یہ دونوں حوالے اس طرف فٹ نہیں بیٹھ رہے ہیں، ذرا اس جانب دھیان دیں پلیز
rais Mar 03, 2017 07:54pm
@Muhammad abid bhatti You are Right
Erum HAFEEz Mar 03, 2017 08:15pm
@Muhammad abid bhatti aap nai bilkul durust tajzia kiya hai. Hamarai deen aur Quran mai is hawalai sai wazah talimat ki zuroorat hai tau maghrib ki taqleed ki kiya zuroorat. Waha tau tabahi hi tabahi hai
Erum HAFEEz Mar 03, 2017 08:17pm
@Abdullah Malik you nailed it. Very well-said!
Erum HAFEEz Mar 03, 2017 08:36pm
@Ahsan thanks for your valuable feedback. You are absolutely right.
sufyan ali Mar 03, 2017 11:10pm
ap ne sai kha h.parents ko inform karna chaye . ager parents guide kar dye tu phir bher se koi b maswra nahi lye ga. dost tu bore b hote h . ache b .bahtren dost tu parents he .es lye chaye parents ko child k sath dosto k trha rhna .ta k wo parents k sth her baat share ka ske
mehtab Mar 03, 2017 11:35pm
aap ne brhi zbardst point uthaee hai
abdul latif Mar 04, 2017 02:32am
nice write up based on truth well done madam
Erum Hafeez Mar 04, 2017 09:08am
@mehtab thanks! Hope it helps people to consider and change their attitude towards these issues.
Erum Hafeez Mar 04, 2017 09:12am
@sufyan ali bilkul. dost bunnai hi mai bhalai hai bacchon ki bhi or parents ki bhi. May Allah give us all Hidayat. Stay blessed!
I.M. KHAN Mar 04, 2017 01:06pm
Those moulveez, who are against 'sex education' should read "BAHESHTI ZAIWAR" written by Moulana Ashraf Ali Thanvi. In my opinion this book must be banned or given "A" certificate.
m.fareed ishaq Mar 04, 2017 07:53pm
eram hafeez aap k khiyalat our tajarbat o mushahidat haqiqe hein mgr yahn socity k msail b kuch kam nai. sb sy behtar tu yehi hy chunky bach amumn 14,15 sal ki umer mein balooghat ko puhnch jata hy es liy es k hisab sy taleemi nisab mein aggai zaroori hy, baqi purany khiyalat wali baat aap ki darust nai hy, jes zmany k tajrbat un logon k hein un sy aap waqif nai hein.
Anwer Mar 05, 2017 10:50pm
The topic should be discussed by the parents at specific time, instead of through academic curriculum or any teacher. I am also educate my children (male) about the changes and how they would overcome these. And same my wife also educate to daughters in such a manner.
Mumtaz Ahmed shah Mar 06, 2017 11:22am
An excellent article written by Iram Hafeez. I do agree that information relating to sex may please be given to the children who are reaching to the age of puberty. (Texas)

کارٹون

کارٹون : 5 نومبر 2024
کارٹون : 4 نومبر 2024