• KHI: Maghrib 5:42pm Isha 7:02pm
  • LHR: Maghrib 4:59pm Isha 6:25pm
  • ISB: Maghrib 5:00pm Isha 6:28pm
  • KHI: Maghrib 5:42pm Isha 7:02pm
  • LHR: Maghrib 4:59pm Isha 6:25pm
  • ISB: Maghrib 5:00pm Isha 6:28pm

سیہون میں سیکیورٹی صوبائی حکومت کی ذمہ داری تھی، وزیرداخلہ

شائع February 25, 2017
وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان—۔ڈان نیوز
وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان—۔ڈان نیوز

اسلام آباد: لعل شہباز قلندر کے مزار پر ہونے والے حالیہ خودکش دھماکے کے حوالے سے وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کا کہنا ہے کہ سیہون میں سیکیورٹی وفاقی نہیں صوبائی حکومت کی ذمہ داری تھی۔

اسلام آباد میں پریس کانفرنس کے دوران سندھ کی صوبائی حکومت پر تنقید کرتے ہوئے چوہدری نثار نے کہا کہ سیہون خودکش حملے کے بعد ہونے والے اجلاس میں ہمیں صرف یہ بریفنگ دی گئی کہ دھماکے میں کتنے لوگ ہلاک اور زخمی ہوئے اور انھیں کہاں منتقل کیا گیا۔

وزیر داخلہ نے مزید بتایا کہ 'جب میں نے سندھ کے چیف سیکریٹری سے سیکیورٹی لیپس کے حوالے سے سوال کیا تو ان کے پاس اس کا کوئی جواب نہیں تھا، پھر آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے بھی اس حوالے سے سوال کیا'۔

چوہدری نثار نے سوال کیا کہ 'کیا ہماری وجہ سے وہاں واک تھرو گیٹس فعال نہیں تھے یا بجلی نہ ہونے کے ذمہ دار بھی ہم تھے؟'

مزید پڑھیں:درگاہ لعل شہباز قلندر میں خودکش دھماکا

یاد رہے کہ رواں ماہ 16 فروری کو سندھ کے شہر سیہون میں واقع لعل شہباز قلندر کی درگاہ پر خودکش دھماکے کے نتیجے میں 80 سے زائد افراد جاں بحق جبکہ 200 سے زائد زخمی ہوئے، اس دھماکے کی ذمہ داری کالعدم تنظیم جماعت الاحرار نے قبول کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔

اس موقع پر وزیر داخلہ نے صوبائی حکومتوں کے لیے جاری کی گئی ایڈوائزری پر بھی بات کی اور کہا کہ 'ہم نے صوبوں کو یہ بتادیا تھا کہ اس جگہ سے دہشت گرد آئیں گے اور ان کی یہ حکمت عملی ہوگی لیکن اس پر کوئی عملدرآمد نہیں ہوا'۔

چوہدری نثار نے شکوہ بھی کیا کہ جب بھی کوئی واقعہ رونما ہوتا ہے تو وفاقی وزیر داخلہ کے استعفیٰ کا مطالبہ کردیا جاتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں:سیہون دھماکا: قیمتی جانوں کے ضیاع پر ملک سوگوار

ساتھ ہی انھوں نے کہا کہ 20 نکاتی نیشنل ایکشن پلان آسمان سے نہیں آیا، یہ سب کی مشترکہ ذمہ داری ہے، اس کے 10 نکات صوبائی حکومتوں کے ذمہ ہیں جبکہ بقیہ 10 میں سے بھی 4 وزارت داخلہ کے ذمہ ہیں۔

دہشت گردی کے واقعات میں کمی کا دعویٰ

پریس کانفرنس کے دوران وفاقی وزیر داخلہ نے ایک مرتبہ پھر ملک میں دہشت گردی کے واقعات میں کمی کا دعوی کیا اور کہا کہ دہشت گردی کے خلاف حکومتی اقدامات کارگرثابت ہوئے، 2013 میں روزانہ چھ سے سات دھماکے ہوتے تھے، اب مہینوں میں کوئی واردات ہوتی ہے۔

ساتھ ہی انھوں نے بتایا، 'گذشتہ برس 10 سالوں میں پہلی دفعہ ہزار سے کم دھماکے ہوئے، جس کا اعتراف پوری دنیا نے کیا، ان دھماکوں میں سے 450 میں کوئی جانی نقصان نہیں ہوا، جبکہ 260 میں جانی نقصان ہوا، تاہم یہ بھی نہیں ہونا چاہیے تھا'۔

وزیر داخلہ نے اعتراف کیا کہ پاکستان میں دہشت گردی ختم نہیں ہوئی، لیکن اس کا گراف کم ضرور ہوا ہے۔

میڈیا سے معاونت کی درخواست

پریس کانفرنس کے دوران چوہدری نثار نے درخواست کی کہ میڈیا کے ادارے دہشت گردوں کے نمائندوں کی تشہیر نہ کریں۔

ان کا کہنا تھا کہ ہمیں دہشت گردوں تنظیموں اور ان کے نمائندوں کو مکمل بلیک لسٹ کرنا ہے اور ملکی سلامتی کے لیے دہشت گردوں کی تشہیر روکنے کی اشد ضرورت ہے۔

چوہدری نثار کا کہنا تھا کہ میڈیا کی پہنچ بہت زیادہ ہے اور عوام اس پر یقین رکھتے ہیں۔

تبصرے (1) بند ہیں

KHAN Feb 25, 2017 06:29pm
السلام علیکم: اگر بجلی نہیں تھی تو اس کی ذمے داری وفاقی حکومت پر عائد ہوتی ہے۔ سندھ بھر میں کچھ افراد پر چوری کا الزام لگا کر پورے پورے علاقے کی بجلی بند کردی جاتی ہے، اسی طرح ناجائز بل بھیجے جاتے ہیں جن کو ادا نہ کرنے کی وجہ سے ان کو ڈیفالٹر قرار دے دیا جاتا ہے ، وفاق بجلی کی فراہمی کے لیے صرف اور صرف پنجاب کو ہی اہمیت دے رہا ہے۔ سندھ اور دیگر صوبوں کے لیے کچھ نہیں کیا جارہا، ریلوے کے وزیر کراچی آتے ہیں تو پنجاب میں پاور پلانٹ کے لیے کوئلہ فراہم کرنے کے لیے انجن منگوانے کی تقریب میںِ عابد شیر علی اور نئے گورنر سندھ پورٹ قاسم کا دورہ کرتے ہیں تو کوئلے منگوانے کیلیے بنائی گئیں نئی گودیوں کا معائنہ کرنے۔ بجلی پورے ملک میں سستی ہوتی ہے صرف کراچی کے کے الیکٹرک کے علاوہ۔ وفاقی حکومت ہم سندھ میں رہنے والوں پر بھی توجہ دیں۔ مگر شاید ان کی اگلی منصوبہ بندی یہ ہے کہ ن لیگ پنجاب سے سیٹیں لے لیں، پی پی سندھ سے اور دونوں مل کر حکومت کریں۔ کچھ ایم کیو ایم ، کچھ اے این پی، کچھ جے یو آئی کو اور کچھ بلوچوں کو دے کر سب کو خوش کیا جائے۔ اگر عوام کا بیڑہ غرق ہوتا رہے تو کوئی بات نہیں۔ خیرخواہ

کارٹون

کارٹون : 27 نومبر 2024
کارٹون : 26 نومبر 2024