جوشؔ، بیسویں صدی کے بے باک مزاحمتی شاعر
انسانی تاریخ گواہ ہے کہ دنیا میں رونما ہونے والے سیاسی اور سماجی انقلابات میں شعراء، مصنفین اور دانشوروں کا کردار انتہائی مثبت اور کلیدی رہا ہے۔
کسی بھی سماج یا معاشرے میں جہاں افراد معاشرتی انتشار، معاشی مشکلات اور سماجی ناانصافیوں کا شکار ہوں وہاں سب سے پہلے علمی و ادبی طبقہ بیدار ہوتا ہے.
یہ طبقہ اپنی ادبی تخلیقات اور تقاریر سے عام افراد کو یہ احساس دلاتا ہے کہ اُنہیں معاشرتی استحصال کا اژدھا آہستہ آہستہ نگل رہا ہے، ایسی صورت میں کسی معاشرے میں انقلاب کی پیدائش یا سماجی تغیر انسانی بیداری کا ثمر ہوتے ہیں۔
ہندوستان میں برطانوی سامراجی حکومت کے خلاف برصغیر کے عوام کو بیدار کرنے کے حوالے سے جنوبی ایشیاء سے منسلک علمی و ادبی شخصیات نے بھی 19 ویں صدی کے اختتام اور 20 ویں صدی کے ابتدائی و درمیانی عرصے میں اہم تاریخی کردار ادا کیا۔
انہی شخصیات میں پاک و ہند کے معروف انقلابی شاعر جوش ملیح آبادی کا نام انتہائی اہم ہے جنہوں نے ہندوستان میں برطانوی راج کے خلاف تحریکِ آزادی کو فروغ دینے میں اپنی انقلابی، سیاسی و نظریاتی شاعری کے ذریعے اہم کردار ادا کیا۔
سنو اے بستگان زلف گیتی
ندا کیا آ رہی ہے آسماں سے
کہ آزادی کا اک لمحہ ہے بہتر
غلامی کی حیات جاوداں سے
بیسویں صدی کے وسط سے لے کر اب تک شاید ہی کوئی ایسا شاعر، ادیب، دانشور یا لکھاری ہو جو جوشؔ ملیح آبادی کی شاعرانہ عظمت کا قائل یا اُن کی شاعری سے متاثر نہ ہوا ہو، اور کیوں نہ ہو بقولِ ڈاکٹر ہلال نقوی "شعری جہات اور اپنے تخلیقی توانائی کے اعتبار سے جوشؔ صاحب کا نام اُردو کی ادبی تاریخ میں ایک بہت تابناک اور درخشاں باب کی حیثیت رکھتا ہے۔"
معروف دانشور اور اردو دان پروفیسر گوپی چند نارنگ کہتے ہیں کہ ”20 ویں صدی میں ٹیگور اور اقبال کے بعد جتنی عزّت، شہرت اور مقبولیت جوش کو نصیب ہوئی، کسی دوسرے شاعر کے حصے میں نہیں آئی۔“
جوش نے ہندوستانی معاشرے کے سلگتے ہوئے سماجی مسائل پر انتہائی بے باکی سے اپنے خیالات کا اظہار کیا، کبھی وہ بھوک اور افلاس کی مذمت کرتے ہیں تو کبھی انسانی جہل پر نوحہ خوانی کرتے ہوئے نظر آتے ہیں تو کبھی ظالم حکمرانوں کو للکارتے ہیں اور کبھی عوامی فکری جمود اور بے حسی پر شکوہ کرتے ہیں۔
جس دیس میں آباد ہوں بھوکے انسان
احساسِ لطیف کا وہاں کیا امکان
اِک فکرِ معاش پر نچھاور سو عشق
اک نانِ جویں پہ لاکھ مکھڑے قربان
انہوں نے انسانی بیداری کا خواب دیکھا جس کی تکمیل کے لیے انہوں نے اپنی بے پایاں شاعرانہ صلاحیتوں کا سہارا لیا اور ظالم و جابر حکمرانوں، معاشرتی ناہمواریوں، مفاد پرست مذہبی ٹھیکیداروں، استحصالی معاشی نظام، قدیم کہنہ روایات و اساطیر، اور غیر عقلی مذہبی عقائد و رسومات کے خلاف لفظوں کے نشتر سے انسانی روح کو بیدار کرنے کی سعی کی:
اُٹھ اور زمیں پہ نیا لالہ زار پیدا کر
نہ آئی ہو جو کبھی ہو بہار پیدا کر
نظامِ کہنہء نیلی رواق، وہم و فریب
نیا تصورِ لیل و نہار پیدا کر
بہار میں تو زمیں سے بہار اُبلتی ہے
جو مرد ہے تو خزاں میں بہار پیدا کر
جوش کی شاعری میں انسان کو تقّدم حاصل ہے، ان کی پوری شاعری انسانی بیداری کی آئینہ دار ہے، عظمتِ انسان جوش کی شاعری کی اساس ہے۔ جوش انسان کی جبیں پر سربلندی اور سرفرازی کا تاج دیکھنا چاہتے ہیں۔
کہتے ہیں کہ:
حُبِ نوعِ بشر ہے میرا ایمان
ہر چہرہ زشت و خوب، میرا قُرآن
اللہ کو آغوش میں پایا میں نے
جیسے ہی مری گود میں آیا انسان
وہ انسان کو ہر تقسیم، ہر تفریق اور ہر گروہ بندی سے بہت بلند پاتے ہیں، ان کا انسان باشندہ آفاق ہے:
انسان کی توحید کا مشتاق ہوں میں
شمع حب عمیم کا طاق ہوں میں
مشرق کا نہ پابند نہ مغرب کا اسیر
انسان ہوں باشندہ آفاق ہوں میں
جوش حُسن پرست بھی ہیں لیکن معاشرے کو بیدار کرنے کا جذبہ اُن میں اتنا توانا ہے کہ وہ جب ایک عورت کو چلچلاتی دھوپ میں، مٹی میں آلودہ پتھر توڑتا ہوا دیکھتے ہیں تو بے ساختہ آواز دیتے ہیں کہ:
دستِ نازک کو رسن سے اَب چھڑانا چاہیے
اِس کلائی میں تو کنگن جگمگانا چاہیے
اگر ہندوستان کی تحریک آزادی کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوگا کہ 20 ویں صدی میں جوش کی آواز سب سے زیادہ توانا اور بڑی سیاسی آواز تھی۔ یہ وہ آواز تھی جس کی گھن گھرج سے انگریز سامراج کے ایوانوں میں لرزہ طاری تھا اور مغربی استعمار کی نیندیں حرام ہو گئیں تھیں۔
یہ وہی دور ہے جب جوشؔ کی ولولہ انگیز فکری، انقلابی و سیاسی شاعری کو ہندوستان میں ایسی شہرت ملی جو علامہ اقبال کے بعد کسی دوسرے شاعر کے حصے میں نہیں آئی۔
کبھی جوش اپنے انقلابی افکار کے تحت جابر حکمرانوں کو للکارتے اور پھٹکارتے ہوئے نظر آتے ہیں تو کبھی شہر یاری اور تاجِ شاہی سے بیزاری اور برات کا اظہار کرتے ہیں۔
دوسرے عالم میں ہوں دنیا سے میری جنگ ہے
تاجِ شاہی سے قدم بھی مس کروں تو ننگ ہے
ان کے نزدیک بادشاہوں، ظالم و جابر حکمرانوں کے آگے انسان کا سرنگوں ہونا انسانی سرفرازی و سربلندی کی توہین ہے۔
اُٹھائے گا کہاں تک جوتیاں سرمایہ داری کی
جو غیرت ہو تو بنیادیں ہلا دے شہریاری کی
حضرت جوش نے اپنی نظم"ایسٹ انڈیا کمپنی کے نام" سے نہ صرف سیاسی شاعری کو اوجِ کمال بخشا بلکہ فرنگی سامراج کی صفوں میں کھلبلی مچادی، انہوں نے نظم گوئی کے فن کو جس مہارت سے جہاد آزادی کے لیے استعمال کیا اس کی نظیر اُردو ادب کی تاریخ میں نہیں ملتی۔
کس زباں سے کہہ رہے ہو آج تم سودا گرو
دہر میں انسانیت کے نام کو اونچا کرو
جوش ہر اُس فکر، نظامِ حکومت اور نظامِ زندگی کو مسترد کرتے ہیں جو انسان کو اسیر کر کے اُس کی فکری پرواز میں حائل ہوتے ہیں، جوش مغربی سرمایہ داری، جاگیرداری، ایشیائی ملوکیت اور عرب مطلق العنانیت کے مخالف ہیں۔ جوش نے اپنے اجداد کی مثل خود تو تلوار نہیں اُٹھائی لیکن قلم کو بطور شمشیر استعمال کیا، وہ خود کہتے ہیں کہ:
پیرِ ماضی سے جواں عہد لیا ہے میں نے
سیف پگھلا کے قلم ڈھال لیا ہے میں نے
ایک اعتبار سے جوش سب سے جدا شاعر ہیں جنہوں نے صاحبانِ اقتدار کی موجودگی میں بڑی بے باکی سے حکومتی ظلم و ستم کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا اور مشاعرے کو سیاسی جلسہ گاہ میں بدل دیا۔
اس تازہ کربلا سے ہے نو ع بشر دو چار
پھر نائب یزید ہیں دنیا کے شہریار
مٹھیوں میں بھر کر افشاں چل چکا ہے انقلاب
ابرِ غم زلفِ جہاں پر بال جنباں ہے تو کیا
کل جواہر سے گراں ہوگی لہو کی بوند بوند
آج اپنا خون پانی سے بھی ارزاں ہے تو کیا
—نظام ِ نو، عرش و فرش
جوش کی نظمیں آثارِ انقلاب، غلاموں سے خطاب، صدائے بیداری، بغاوت، مستقبل کے غلام، غلاموں سے خطاب، آدمی دے اے خدا، نوجوان سے خطاب، محرومِ تمغہ، روحِ استبداد کا فرمان، سرمایہ دار شہریار، وفاق، بارگاہِ قدرت میں ایک اشتراکی رند کا مشورہ، باغی انسان، وفادارانِ ازلی کا پیام، انسان کا ترانہ اور روشنیاں ایسی نظمیں تھیں جن سے ہندوستانی ذہنوں میں آزادی کی اہمیت کو اُجاگر کیا۔
بھرا ہوا غیظ میں سمندر فضاکی جانب ہمک رہا ہے
گرج کڑک ہے، کڑک چمک ہے، چمک ہوا ہے، ہوا گھٹا ہے
جھنن جھنن ہے، گھرڑ گھرڑ ہے، گھنن گھنن ہے دنا دنا ہے
فلک کے ہونٹوں پہ الحذر ہے زمین کے لب پہ الاماں ہے
کوئی خدا کے لیے بتاؤ کہ ناخدا کون ہے کہاں ہے؟
—ناخدا کہاں ہے
جوش نے صرف انقلاب کے تصور کو ہی فروغ نہیں دیا بلکہ اس کے ساتھ ساتھ بغاوت کے بھی گیت لکھے:
ہاں بغاوت آگ بجلی موت آندھی میرا نام
میرے گرد و پیش اجل میرے جلو میں قتل عام
کیا ہند کا زنداں کانپ رہا ہے گونج رہی ہیں تکبیریں
اُکتائے ہیں شاید کچھ قیدی اور توڑ رہے ہیں زنجیریں
آنکھوں میں گدا کے سرخی ہے بے نور ہے چہرہ سلطاں کا
تخریب نے پرچم کھولا ہے سجدے میں پڑی ہیں تعمیریں
جوش کی شاعری میں جذبہء حب الوطنی بھی غالب نظر آتا ہے:
تڑپ کہ مجھ کو پکارا ہے ملک و ملت نے
اب آج سے مجھے پروائے ننگ و نام کہاں
لبِ حیات نے چھیڑا ہے قصہء خونیں
میری زبان کو اب رخصت کلام کہاں
—ترک جمود، شُعلہ وشبنم
جوش پر یہ تنقید غیر معقول لگتی ہے کہ ان کے سیاسی و انقلابی نظریات سنجیدہ غور و فکر کا نتیجہ نہیں ہیں، مقالات جوش میں جوش خود کہتے ہیں کہ ’آپ کو معلوم نہیں کہ میں سقراط، مُزدک، زرتُشت، گوتم بدھ، مہاویر، تلسی داس، کنفیوشس، مسیح، کبیر داس، گرو نانک، مارکس، نطشے اور برٹینڈ رسل کا بھی دل و جاں سے شیدائی ہوں۔‘
جوش ایک صاحبِ مطالعہ، علم و تحقیق کے دلدادہ انسان تھے جبکہ عقلیت پرستی ان کا ایمان تھی۔
اس دھن میں کہ دل عقل کے شیدا ہو جائیں
آفاق کے اسرار ہویدا ہو جائیں
مدت سے گرا رہا ہوں تخم افکار
شاید کہ نئے درخت پیدا ہوجائیں
—نجوم و جواہر
جوش نے تحقیق اور علم کی اہمیت پر بھی بہت زور دیا ہے وہ جانتے تھے کہ تحقیق کی ہی بدولت نئے علوم جنم لیتے ہیں:
تحقیق کے شعلوں کو ہوا دیتا ہے
ہر موڑ نئی راہ دکھا دیتا ہے
اُف علم ہے وہ غذائے حیرت انگیز
جو ذہن کی بھوک اور بڑھا دیتا ہے
پھولوں سے جو گل زار مہک اُٹھتا ہے
کانٹا سے معاً دل میں کھٹک اُٹھتا ہے
جس وقت کہ علم کا جلاتا ہوں چراغ
تو چہرہء جہل اور دمک اُٹھتا ہے
جوش صاحب آزادیِ خیال اور آزادیِ رائے کے بھی مُبلّغ تھے، اس آزادی کا استعمال جوش نے اپنی شاعری میں بہ بانگِ دہل کیا ہے، یہی وہ جدا خصوصیت ہے جس نے جوش کو شاعر انقلاب کے منصب پر فائز کیا۔
جوشؔ کی شاعری کے کسی بھی زاویے کا مکمل احاطہ کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے لیکن اس حقیقت سے انکار قدرِ دشوار ہے کہ جس قدر جوشؔ صاحب سے والہانہ محبت کی گئی ہے اُتنی ہی اُن کی مخالفت بھی رہی ہے اور اِس مخالفت کی بنیادی وجوہ میں صرف اُن کی بے باکی، ریاکاری سے گُریز اور تغیر پسندی کا جذبہ ہی شامل نہیں ہیں بلکہ جوش کی شخصیت اور اُن کی ادبی خدمات سے ناواقفیت کا عنصر بھی اس بے بنیاد مخالفت کے اسباب میں داخل ہے۔
18 ویں اور 19 ویں صدی کے معروف فلسفی ہیگل نے کہا تھا کہ ”میرا فلسفہ میرا صرف ایک ہی شاگرد روزن کرائنز سمجھا ہے اور وہ بھی غلط سمجھا ہے۔“
ہیگل کی یہ مثال شاید مکمل طور پر جوش صاحب کے معاملے میں صادق نہیں آتی ہے لیکن معروف ترقی پسند شاعر سردار جعفری نے بہت کھل کر اس حقیقت کا اظہار کیا ہے کہ جوش کو نظر انداز کیا گیا ہے اور اُن پر تحقیقی کام نہیں ہوسکا۔
موجودہ پاکستانی معاشرے میں جو سیاسی اور معاشرتی خلفشار کی ایک جامع تصویر ہے نہ صرف اقبال کے تصوّرِِ اجتہاد بلکہ اس کے ہمراہ جوش ملیح آبادی کے احترامِ آدمیت اور سیاسی بیداری پر مبنی انقلابی افکار کو بھی فروغ دینے کی ضرورت ہے تاکہ معاشرہ بیداری کی اُس نہج پر پہنچ جائے جہاں سے معاشرتی ارتقاء کے چشمے پھوٹنا شروع ہوتے ہیں۔
22 فروری جوشؔ ملیح آبادی کا یومِ وفات ہے۔
تبصرے (1) بند ہیں