کیا 'محفوظ پناہ گاہیں' صرف افغانستان میں ہیں؟
تشدد کی حالیہ لہر اور اس کے جواب میں ڈیورنڈ لائن کے پار فوج کی کارروائی کابل اور اسلام آباد کے درمیان تناؤ میں اضافے کا باعث بنی ہے۔
سرحد کی کسی بھی ایک جانب ہونے والے دہشتگرد حملوں کے بعد ایک دوسرے پر الزام تراشی کا کھیل عام طور پر دیکھنے کو ملتا تھا مگر اس بار معاملات الزام تراشی سے آگے بڑھ چکے ہیں۔ پاکستان نے افغان سرحد سیل کرتے ہوئے دراندازی کرنے والوں کو دیکھتے ہی گولی مارنے کے احکامات جاری کر دیے ہیں۔
پاکستان کے اشتعال میں آنے کی وجہ افغانستان میں موجود عسکریت پسند گروہوں کی جانب سے ملک میں کی جانے والی حالیہ پرتشدد کارروائیاں ہیں۔ قبائلی علاقوں سے دھکیلے جانے کے بعد پاکستانی طالبان کے کئی دھڑے اپنے لیے سرحد پار محفوظ ٹھکانے تلاش کر چکے ہیں۔ حالیہ قتل عام اس بات کا اشارہ دیتا ہے کہ پورے پاکستان میں دہشتگردی کے بربریت سے بھرپور کارروائیوں کے آغاز کرنے کے لیے عسکریت پسند کس قدر تیزی سے منظم ہو چکے ہیں۔
جہاں ایسے غیر معمولی دہشتگرد حملوں کے لیے ملک کے اندر موجود عسکریت پسند نیٹ ورکس کی سہولت کاری اور مدد مطلوب ہوتی ہے، وہاں سرحد پار محفوظ ٹھکانے عسکریت پسندوں کو بڑے پیمانے پر آزادانہ نقل و حرکت کا موقع فراہم کرتے ہیں۔ طویل اور غیر محفوظ سرحد نے عسکریت پسندوں کے لیے کسی بھی قسم کی کارروائی سے بھاگنا آسان کر دیا ہے۔
پڑھیے: ہندوستانی دہشتگردی کے جواب میں کشمیریوں کی حمایت کی جائے
حالیہ حملوں میں 100 سے زائد معصوم لوگوں کی موت کی ذمہ دار جماعت الاحرار موجودہ وقت میں افغان سرحدی علاقے سے کارروائی کرنے والی پاکستان کی عسکریت پسند تنظیموں میں سب سے بڑی اور مہلک تنظیم ہے۔ یہ نیٹ ورک داعش کے ساتھ اپنی وفاداری کا عہد کر چکا ہے جس نے صورتحال کو اور بھی زیادہ خطرناک بنا دیا ہے۔
پاکستانی افواج نے سرحد سے ملحقہ اس گروپ کے چند ٹھکانوں کو نشانہ بنانے اور اس کے چند سینیئر کمانڈرز کو مارنے کا دعویٰ کیا ہے مگر کوئی اس بارے میں وثوق سے نہیں کہہ سکتا کہ آیا ایسی جوابی کارروائیوں سے سرحد پار دہشتگردی کے بنیادی ڈھانچے کو تباہ کیا جا سکتا ہے جسے مبینہ طور پر افغان انٹیلجنس ایجنسیوں کے چند عناصر کی مدد حاصل ہے۔ افغان طالبان کے دھڑوں کے ساتھ تعلقات رکھنے والے ایک گروپ کے بھی چند شواہد موجود ہیں۔
اس طرح کی سرحد پار کارروائیوں میں ہمیشہ شدت پیدا ہونے کا خطرہ موجود رہتا ہے۔ کوئی بھی پاکستانی آرمی چیف کی انسداد دہشتگردی کی مشترکہ کوششوں کی تجویز سے انکار نہیں کر سکتا۔ مگر یہاں کابل کے ساتھ ہمارے تعاون پر بھی سوال پیدا ہوتا ہے جو ایک طویل عرصے سے افغانستان میں دہشتگرد حملوں کے لیے پاکستان کے سرحدی علاقوں میں افغان طالبان کی ’ریاست سے منظورشدہ’ پناہ گاہیں موجود ہونے کا الزام لگاتا آیا ہے۔
شاید کوئی افغانستان کے اندر ہونے والے دہشتگرد حملوں میں ہماری ایجنسیوں کے شامل ہونے کے الزامات سے متفق نہ ہو مگر اس بات میں حقیقت ضرور ہے کہ افغان طالبان کے پاکستان میں محفوظ ٹھکانوں کے بغیر افغان بغاوت زیادہ عرصے تک قائم نہ رہ پاتی۔ اب یہ بات راز نہیں رہی کہ زیادہ تر افغان طالبان رہنما پاکستان میں بیٹھ کر کارروائیاں کرتے چلے آ رہے تھے۔
لہٰذا اب جبکہ افغانستان میں چھپے 76 عسکریت پسندوں کو حوالے کرنے کے ہمارے مطالبے کے جواب میں افغان حکومت نے جو 85 عسکریت پسندوں کی فہرست تھمائی ہے تو اس میں کسی کے لیے حیرانی بات نہیں ہے۔
افغان حکومت کو مطلوب عسکریت پسندوں میں حقانی نیٹ ورک اور دیگر طالبان کمانڈر بھی شامل ہیں۔ پاکستانی عسکریت پسندوں کی مبینہ افغان سرپرستی پاکستان پر دباؤ بڑھانے کے لیے جیسے کو تیسا کی حکمت عملی دکھائی دیتی ہے کیوں کہ کابل انتظامیہ کو بڑھتی ہوئی طالبان شدت پسندی کا سامنا ہے۔
پناہ گاہوں کی اس جنگ کی ایک بڑی وجہ پاکستان اور افغانستان دونوں میں ہونے والے دہشتگرد حملوں میں پیدا ہونے والی حالیہ شدت رہی ہے۔ ’دشمن کا دشمن دوست’ کی اس خطرناک حکمت عملی نے دہشتگردوں کے لیے کھل کر کارروائی کرنے کا موقع فراہم کر دیا ہے جس کے باعث پورا خطہ خطرے کی زد میں ہے۔ سرحد پار حملوں سے صرف دونوں ممالک کے درمیان دشمنی کو ہی ہوا ملے گی، یوں ان کے لیے اپنے مشترکہ دشمن کے خلاف متحد ہو کر لڑنا مشکل بن جائے گا۔ علاوہ ازیں، یہ بھی واضح طور پر سمجھنے کی ضرورت ہے کہ آخر ہمارا دشمن ہے کون۔
پڑھیے: ٹوٹی کمر کا فسانہ
اس بات سے کوئی انکار نہیں کہ عسکریت پسندی اور دہشتگردی کے خلاف لڑائی میں سرحد پار پناہ گاہیں سب سے بڑی رکاوٹیں ہیں۔ یہ نہ صرف پاکستان کے لیے ایک حقیقت ہے بلکہ طالبان عسکریت پسندی سے نبرد آزما افغانستان کے لیے بھی ایک حقیقت ہے۔ دو پڑوسی ممالک کے درمیان مخالفانہ تعلقات نے بلاشبہ دہشتگردی کے ناسور سے نمٹنا اور بھی مشکل بنا دیا ہے۔
افغانستان کو بھی گزشتہ چند برسوں کے دوران عسکریت پسندوں کے پرتشدد حملوں میں بھاری تعداد میں شہریوں کی اموات کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق، افغانستان میں 2001 کے امریکی حملے کے بعد سے 2016 سب سے زیادہ خون آلود سال تھا جس میں ہزاروں شہری دہشتگرد حملوں میں مارے گئے، جن میں زیادہ تعداد عورتوں اور بچوں کی ہے۔ ان میں سے کئی حملوں کی ذمہ داری قبول کرنے والے عسکریت پسند گروہ داعش سے منسلک ہیں، اور وہی گروپس پاکستان میں ہونے والے حملوں میں بھی شامل رہے ہیں۔
بلاشبہ پاکستان اور افغانستان ماضی میں ایک دوسرے کے مخالفین کو پناہ گاہ کی پیش کش کرتے رہے ہیں، جو کہ دونوں پڑوسیوں کے درمیان دشمنی اور عدم اعتماد کی ایک بڑی وجہ ہے۔ جہاں ماضی میں افغانستان نے بلوچ اور پختون علیحدگی پسندوں کو پناہ دی، وہاں پاکستان نے 1979 میں افغانستان پر سوویت حملے کے بعد جنگجوؤں اور امریکی حملے کے بعد ایک بار پھر طالبان کو پناہ فراہم کی۔
افغان جنگ کی پاکستانی حمایت سے سرحدی علاقہ جارحیت اور بنیاد پرستی کا شکار ہو گیا اور جس کے منفی اثرات آج بھی دونوں جانب بھگتنے پڑ رہے ہیں۔ ہندوستانی جاسوس ایجنسیوں کی جانب سے بلوچ قوم پرست عسکریت پسندوں کو افغانستان میں مدد فراہم کرنے پر اسلام آباد کے تحفظات سے بھی دونوں ممالک کے درمیان اختلافات میں شدت پیدا ہوئی ہے۔
پڑھیے: بیرونی ہاتھ کے ساتھ ساتھ اندرونی اعضاء کو بھی سنبھالنا ہوگا
دہشتگردی اور پرتشدد دراندازی کے اس چیلنج سے مقابلہ کرنے کی مشترکہ حکمت عملی تشکیل دینے کے لیے دونوں ممالک کو اپنے درمیان حائل تناؤ کی اہم وجوہات کو ختم کرنا ہوگا۔ سرحد پار پناہ گاہوں سے حاصل مدد اور حمایتی نیٹ ورک کی حامل عسکریت پسندیوں سے میزبان ملک کی خودمختاری مزید کمزور پڑ جاتی ہے۔
افغان حکومت کا یہ مؤقف، کہ جہاں سے پاکستانی عسکریت پسند کارروائی کرتے ہیں اس زمین پر وہ کنٹرول نہیں رکھتی، زیادہ اطمینان بخش نہیں۔ افغان طالبان رہنماؤں اور جنگجوؤں کے خلاف کارروائی نہ کرنے کا ایک ایسا ہی جواز پاکستانی حکام کی جانب سے دیا گیا تھا۔
انسداد دہشتگردی کی مشترکہ پالیسی کی تشکیل نہ صرف دونوں ملکوں کے مفادات کے لیے بلکہ دہشتگردی کے ناسور کے خلاف علاقائی اور عالمی جنگ کے لیے بھی انتہائی اہمیت کی حامل ہے۔ سنگین سیکیورٹی صورتحال کے پیشِ نظر سرحدوں کو محفوظ بنانے اور غیر قانونی سرحد پار نقل و حرکت پر سخت پابندی پاکستان کا ایک قابل فہم اقدام ہے۔
مگر افغانستان کے ساتھ موجودہ تناؤ کی صورتحال میں پاکستان اپنی ان کوششوں میں کامیاب نہیں ہو سکتا۔ دونوں ممالک کے لوگوں کے درمیان اعتماد قائم کرنا بھی ضروری ہے کیونکہ ان کی تقدیریں ایک دوسرے سے بندھی ہیں اور انہیں پناہ گاہوں کی اس تباہ کن جنگ کا خاتمہ کرنا ہوگا۔
یہ مضمون ڈان اخبار میں 22 فروری 2017 کو شائع ہوا۔
تبصرے (2) بند ہیں