ایف آئی اے افسر پر فراڈ کیس میں حقائق تبدیل کرنے کا الزام
کراچی: وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کی جانب سے پاکستان اسٹیل ملز میں کروڑوں روپے کی کرپشن کیس کی تحقیقات اس وقت ایک دلچسپ صورت حال اختیار کر گئی جب ادارے نے اپنے ہی اہلکاروں کے خلاف مذکورہ کیس میں حقائق کو تبدیل کرکے اسٹیل مل کے کچھ حکام کو نشانہ بنانے کے الزام میں تفتیش کا حکم دے دیا۔
حکام کا کہنا تھا کہ ایف آئی اے سندھ کے ڈائریکٹر کی جانب سے ادارے کے ڈائریکٹر جنرل اطلاعات کو مذکورہ کیس کے تفتیشی افسر سمیت دو کے حوالے سے ایک خط میں لکھا گیا ہے کہ 'شکایت کنندہ تحقیقات کو متنازع بنانا چاہتا ہے جیسا کہ تحقیقات اس کی خواہش اور ضرورت کے مطابق نہیں ہوئی ہیں'۔
'ایڈیشنل ڈائریکٹر ایف آئی اے الطاف حسین نے یہ ہدایات بھی کیں کہ ریلائیبل ہسپتال کے سپلائر اور شکایت کنندہ سفیان احمد کے لگائے گئے الزامات کی تحقیقات کیلئے دوبارہ انکوئری عمل میں لائی جائے، ادارے کے انسپکٹر محمد اقبال (تفتیشی افسر) اور محمد سلمان (ادارے کے ملازم) کے خلاف باقاعدہ محکمانہ انکوئری کا آغاز کردیا گیا ہے اور یہ انکوئری ایڈیشنل ڈائریکٹر ایف آئی اے کے سپرد کی گئی ہے اور مذکورہ کیس کی تحقیقات بھی ان کی زیر نگرانی کی جائے گی'۔
خیال رہے کہ ایف آئی اے نے دسمبر 2016 کو پاکستان اسٹیل مل کے کچھ سینئر افسران — جنرل مینجر نصرت اسلام بٹ، مینجر ڈاکٹر مستنصر گیلانی اور اکاؤنٹ سیکشن کے سینئر افسر فہد خان سمیت دیگر — کو گرفتار کیا تھا، ان پر ہسپتال کیلئے ادویات کے ٹھیکوں پر کروڑوں روپے کی خرد برد کا الزام تھا۔
مزید پڑھیں: ایف آئی اے، پولیس افسران کے خلاف الزامات کی رپورٹ طلب
پاکستان اسٹیل ملز کے ہسپتال میں کروڑوں روپے کی خرد برد میں شامل حکام میں ہسپتال کے سہولیات کے انچارج اور چیف میڈیکل افسر بھی شامل ہیں۔
تحقیقات کے دوران یہ بات بھی سامنے آئی کہ ٹینڈرز کو ختم کرنے کے بعد ملزمان نے خود ساختہ اکاؤنٹ کے ذریعے خریداری کیلئے بجٹ منظور کیا۔
پہلی خریداری کیلئے انھوں نے ایک کروڑ کی منظوری لی اور بعد ازاں اس بجٹ کو 2 کروڑ 60 لاکھ تک بڑھا دیا گیا، اس دوران غیر رجسٹر ادویات کی فروخت کرنے والوں سے اور دیگر آزاد ذرائع سے خریداریاں کی گئیں۔
اس کے علاوہ خریداری اور رقم کی ادائیگیوں کیلئے 'جعلی واؤچر' بھی پیش کیے گئے۔
حکام کے مطابق کیس کی مزید تحقیقات سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ شکایت کنندہ کے تفتیشی افسر اور ایف آئی اے کے دیگر حکام سے براہ راست رابطے ہیں اور وہ حقائق اور تحقیقاتی عمل پر اثر انداز ہونے کی کوشش کررہا تھا۔
ایف آئی اے کے ڈائریکٹر کو تحریر کیے گئے خط میں ان حقائق کی نشاندہی کی گئی ہے کہ سندھ پولیس کے سینئر حکام نے بتایا کہ مذکورہ شکایت پر انکوئری کا آغاز شکایت کنندہ اور ایف آئی اے افسر سلمان کے درمیان قریبی تعلق کی وجہ سے ہوا ہے۔
خط میں بتایا گیا ہے کہ 'مذکورہ کیس کی تفتیش کرائم سرکل منتقل کیے جانے کے بعد نئے تفتیشی افسر ظہور احمد بجکانی نے بتایا ہے کہ سابق تفتیشی افسر کی جانب سے ابتدائی چارج شیٹ اور ایف آئی آر میں نامزد دو ملزمان حامد پرویز اور نصرت اسلام بٹ بے گناہ ہیں اور ان کو ٹرائل کیلئے نہیں بھیجنا چاہیے'۔
تحقیقات پر اثر انداز ہونے کے علاوہ افسر کا کہنا تھا کہ ایف آئی اے نے یہ ثبوت بھی حاصل کیے ہیں کہ شکایت کنندہ کی جانب سے پاکستان اسٹیل مل کو جاری کیے جانے والے زائد بلز حکام کو ان کے خلاف تفیش کرنے کیلئے متوجہ کرنے کی کوشش کیلئے تھے۔