فوجی عدالتوں کی بحالی کیلئے حکومتی کوششیں تیز
اسلام آباد: گزشتہ ایک ہفتے کے دوران ملک بھر میں 6 دہشت گرد حملوں میں 100 افراد کی ہلاکت کے بعد حکومت نے فوجی عدالتوں کی بحالی کے لیے کوششیں تیز کردیں۔
اتوار 19 فروری کو قومی اسمبلی کے اسپیکر ایاز صادق اور وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے حزب اختلاف کے پارلیمانی رہنماؤں سے رابطہ کیا اور انہیں آگاہ کیا کہ حکومت فوجی عدالتوں کے معاملے پر 27 فروری کے بجائے 23 فروری کو اجلاس بلانے کا ارادہ رکھتی ہے۔
ڈان اخبارکی رپورٹ کے مطابق وزارت خزانہ کی جانب سے جاری کردہ بیان کے مطابق اسحاق ڈار نے متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کے رہنما فاروق ستار، جماعت اسلامی (جے آئی) کے صاحبزادہ طارق اللہ، عوامی نیشنل پارٹی ( اے این پی) کے غلام احمد بلور، عوامی مسلم لیگ (اے ایم ایل) کے سربراہ شیخ رشید احمد اور فاٹا سے منتخب ایم این اے شاہ جی گل آفریدی سے رابطہ کیا۔
گفتگو کے دوران وزیر خزانہ نے دہشت گردوں کے فوری ٹرائل کو یقینی بنانے کے لیے فوجی عدالتوں کے قیام میں توسیع کی اہمیت کو اجاگر کیا اور تمام رہنماؤں پراس اہم ترین مسئلے پر اتفاق رائے پیدا کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔
وزیر خزانہ نے اسپیکر قومی اسمبلی کو بھی فون کرکے فوجی عدالتوں سے متعلق مرکزی کمیٹی کے آئندہ اجلاس کی تاریخ میں تبدیلی کرنے کے لیے کہا۔
یہ بھی پڑھیں: حکومت فوجی عدالتوں کی جلد بحالی کیلئے کوشاں
اس موقع پر وزیر خزانہ نے اسپیکر قومی اسمبلی کو تجویز پیش کی کہ اگر فوجی عدالتوں کی مرکزی کمیٹی کا اجلاس ترمیمی بل کا جائزہ لینے کے لیے ذیلی کمیٹی کے 22 فروری کو ہونے والے اجلاس کے ایک دن بعد بلایا جائے تو یہ فیصلہ کرنے میں مددگار ثابت ہوسکتا ہے۔
قومی اسمبلی سیکریٹریٹ کی جانب سے جاری کردہ بیان کے مطابق وزیر خزانہ اور اسپیکر کے درمیان گفتگو کے بعد ایاز صادق نے مختلف سیاسی جماعتوں کے پارلیمانی رہنماؤں سے رابطہ کیا، تاہم جاری بیان میں یہ نہیں بتایا گیا کہ اسپیکر نے کن کن رہنماؤں سے بات کی۔
خیال رہے کہ 2 روز قبل 18 فروری کو بھی وزیر خزانہ نے حزب اختلاف کی جماعتوں کے مختلف پارلیمانی رہنماؤں سے فوجی عدالتوں کی دوبارہ بحالی سے متعلق حمایت کے لیے فون کیا تھا۔
وزارت خزانہ کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا تھا کہ اسحاق ڈار نے جمعیت علماء اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن اور ان کے بھائی مولانا عطاء الرحمٰن، قومی اسمبلی میں پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے پارلیمانی لیڈر سید نوید قمر، پاکستان تحریک انصاف ( پی ٹی آئی) کے وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی اور قومی وطن پارٹی (کیو ڈبلیو پی) کے سربراہ آفتاب شیرپاؤ سے رابطہ کیا۔
ٹیلیفونک گفتگو کے دران وزیر خزانہ نے اس معاملے پر اتفاق رائے پیدا کرنے پر زور دیتے ہوئے کہا کہ ملک میں دہشت گردی کی حالیہ لہر کا مقابلہ کرنے کے لیے فوری فیصلے کرنے کی ضرورت ہے۔
انہوں نے پارلیمانی رہنماؤں کے ساتھ گفتگو میں مزید کہا کہ دہشت گردی کے خلاف مہم کی رفتار کو برقرار رکھنے کے لیے فوجی عدالتوں کی بحالی لازمی ہے اورپارلیمنٹ میں موجود سیاسی قیادت کو اس معاملے پر اتحاد اور اتفاق رائے پیدا کرنا چاہیے۔
مزید پڑھیں: 'فوجی عدالتوں کی مدت میں 3 سالہ توسیع کی تجویز'
انہوں نے کہا کہ عوام کی حفاظت اور ملک کی سلامتی پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جاسکتا۔
بیان کے مطابق پارلیمانی رہنماؤں نے دہشت گردی کے خطرات کا مربوط اور مؤثر جواب دینے کے معاملے پر وزیر خزانہ سے اتفاق کیا۔
اس سے قبل 16 فروری کو اسپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق کی زیر صدارت فوجی عدالتوں سے متعلق پارلیمانی کمیٹی کے اجلاس میں حکومت نے فوجی عدالتوں کی مدت میں 3 سال کی توسیع کا مجوزہ ترمیمی بل پیش کیا، مگر حزب اختلاف کے رہنماؤں کی جانب سے کسی گارنٹی اور بین الجماعتی فیصلوں کے بغیر مجوزہ بل کے مسودے کی مخالفت کی گئی۔
تاہم حزب اختلاف کے رہنماؤں نے مسودے کا جائزہ لینے کے لیے وزیر قانون زاہد حامد کی سربراہی میں 5 رکنی کمیٹی کے قیام پر اتفاق کیا تھا، جس کے بعد اعلان کیا گیا کہ نئی کمیٹی کا پہلا اجلاس 22 فروری کو منعقد ہوگا، جب کہ پارلیمانی رہنما 27 فروری کو معاملے پر غور کے لیے دوبارہ اکٹھے ہوں گے۔
خیال رہے کہ دسمبر 2014 میں پشاور کے آرمی پبلک اسکول پر دہشت گردی کے حملے کے بعد 6 جنوری 2015 کو آئین میں 21 ویں ترمیم اور پاکستان آرمی ایکٹ 2015 (ترمیمی) کی پارلیمنٹ سے منظوری کے بعد فوجی عدالتوں کو خصوصی اختیارات دیئے گئے تھے جس کا مقصد ان سول افراد کا ٹرائل کرنا تھا جن پر دہشت گردی کے الزامات تھے۔
یہ بھی پڑھیں: فوجی عدالتوں کا مستقل قیام: 'نیشنل ایکشن پلان کی ناکامی'
پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں نے اس خوف کے باوجود کہ فوجی عدالتوں سے ملک کا جمہوری نظام کمزور ہوسکتا ہے پھر بھی آئین میں 21 ویں ترمیم کی منظوری دے کر مشترکہ طور پر عدالتوں کے قیام کو یقینی بنایا تھا۔
واضح رہے کہ اس وقت فوجی عدالتیں 2 سال کا آئینی تحفظ ختم ہونے کے بعد 7 جنوری 2017 سے غیر فعال ہیں۔
تبصرے (1) بند ہیں