• KHI: Maghrib 5:49pm Isha 7:07pm
  • LHR: Maghrib 5:10pm Isha 6:33pm
  • ISB: Maghrib 5:12pm Isha 6:37pm
  • KHI: Maghrib 5:49pm Isha 7:07pm
  • LHR: Maghrib 5:10pm Isha 6:33pm
  • ISB: Maghrib 5:12pm Isha 6:37pm

'امریکی پابندیاں دہشتگردی کیخلاف جنگ کیلئے سود مند نہیں'

شائع February 19, 2017

میونخ : وفاقی وزیر دفاع خواجہ آصف کا کہنا ہے کہ مغربی ممالک کی لاتعلق رہنے کی پالیسیاں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں معاون ثابت نہیں ہوں گی اور اس سے صرف دہشت گردی میں اضافہ ہوگا۔

میونخ سکیورٹی کانفرنس میں انتہاپسندی اور دہشت گردی کے خاتمے کے حوالے سے ایک پینل مباحثے میں حصہ لیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ دہشت گردی کے 90 فیصد متاثرین خود مسلمان ہیں۔

خواجہ آصف نے کہا کہ پاکستان دہشت گردی کے مکمل خاتمے کیلئے پوری دنیا کا شراکت دار ہے۔

انہوں نے کہا کہ دہشت گردی کا کسی مذہب سے کوئی تعلق نہیں دہشت گرد نہ تو مسلمان ہیں، نہ عیسائی، نہ بدھ مت کے پیروکار اور نہ ہی ہندو بلکہ یہ صرف جرائم پیشہ لوگ ہیں۔

تین روز تک جاری رہنے والی سیکیورٹی کانفرنس میں جرمن چانسلر انجیلا میرکل، امریکی نائب صدر مائیک پینس اور دیگر اہم عالمی رہنما شریک ہیں۔

مباحثے کے دوران وزیردفاع خواجہ آصف نے 'اسلامی دہشت گردی' کا لفظ استعمال کرنے پر شدید مذمت کی اور کہا کہ دہشت گردی کو کسی بھی مذہب کے ساتھ نہیں جوڑنا چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ 'صبح سے میں یہاں درجنوں مرتبہ اسلامی دہشت گردی کا لفظ سن چکا ہوں، امریکی صدر ٹرمپ بھی اسے بارہا استعمال کرتے ہیں لیکن دہشت گرد مسلمان، عیسائی، بدھ مت کے ماننے والے یا ہندو نہیں ہوتے بلکہ صرف مجرم ہوتے ہیں'۔

خواجہ آصف نے کہا کہ دہشت گردی کو اسلام سے جوڑنے سے اسلام مخالف جذبات کو تقویت ملے گی جبکہ اس سے مسئلہ مزید گمبھیر ہوجائے گا۔

مزید پڑھیں: اسلام کو دہشتگردی کا منبع نہیں کہہ سکتے: میرکل

انہوں نے کہا کہ 'امریکا کو چاہے جو بھی تحفظات ہوں لیکن 7 ممالک پر باندی سے دہشت گردی کے خلاف جنگ کو مدد نہیں ملے گی'۔

خواجہ آصف نے کہا کہ 'اگر مغرب لاتعلق رہنے اور امتیازی پالیسی پر عمل پیرا رہے گا تو اس سے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں مدد نہیں ملے گی بلکہ اس سے دہشت گردی میں اضافہ ہوگا'۔

انہوں نے کہا کہ یورپ اور امریکا مہاجرین کو پناہ دینے سے کتراتے ہیں کیوں کہ انہیں خوف ہے کہ اچانک ہزاروں مہاجرین کی آمد سے ان کا سیاسی نظام عدم استحکام کا شکار ہوجائے گا۔

وزیردفاع نے کہا کہ 'ہم تو ایسی ریاستیں ہیں جو خراب معاشی صورتحال کی وجہ سے مفلوج ہیں، امن و عامہ کی صورتحال بھی خراب ہے اور وسائل کم ہیں، پھر بھی ہم لڑ رہے ہیں'۔

دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی قربانیوں کا تذکرہ کرتے ہوئے خواجہ آصف نے کہا کہ 'پاکستان دہشت گردی کے خلاف جنگ میں 2 ارب ڈالر خرچ کرچکا ہے، 60 ہزار جانوں کی قربانی دے چکا ہے لیکن ان تمام چیلنجز کے باوجود پاکستان نے کامیابی سے ساڑھے 6 لاکھ مہاجرین کو واپس بھیجا جو وہاں تین دہائیوں سے مقیم تھے'۔

خواجہ آصف نے کہا کہ 'ایسا شام، عراق ،لیبیا یا دنیا کے کسی حصے میں نہیں ہوا، اگر پاکستان جیسا ملک تین دہائیوں سے زائد عرصے تک بغیر کوئی خاطر خواہ بیرونی امداد کے مہاجرین کو پناہ دے سکتا ہے تو دیگر ممالک بھی ایسا کرسکتے ہیں۔

وزیر دفاع نے کہا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں سب کو ساتھ لے کر چلنے کی حکمت عملی کی ضرورت ہے اور اس بات کو بھی مد نظر رکھنا چاہیے کہ کن حالات میں کوئی بے گھر ہوتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ 'اس بات کو مدنظر رکھنا چاہیے اور ان مداخلتوں سے ہمارے خطے میں امن آیا یا پھر یہ مداخلت الٹی نقصان دہ ثابت ہوئی'۔

خواجہ آصف نے افغان حکومت اور گلبدین حکمت یار کے درمیان ہونے والے امن معاہدے کا خیر مقدم کرنے پر امریکا کو آڑے ہاتھوں لیا۔

انہوں نے کہا کہ گلبدین حکمت یار کو کبھی 'کابل کا قصاب' اور دہشت گرد قرار دیا گیا تھا، یہ دہرا معیار تکلیف دہ ہے۔

خواجہ آصف نے کہا کہ 'تضاد مغرب کی پالیسیوں میں ہے، اس نے دہشت گردوں کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا اور ماضی میں جہاد کی حمایت کی'۔

انہوں نے کہا کہ 'اُس جنگ میں ہم پراکسی تھے اور اب ہم اس کی قیمت خود پر اسلامی دہشت گرد کا لیبل لگواکر چکا رہے ہیں'۔

مزید پڑھیں: 7 مسلمان ممالک کے شہریوں کے امریکا میں داخلے پر پابندی

وزیر دفاع نے دہشت گردی کے خاتمے کے لیے پاکستان کی کاوشوں کی یقین دہانی کراتے ہوئے کہا کہ 'پاکستان دہشت گردی کے خلاف جنگ میں فرنٹ لائن اسٹیٹ ہے اور وہ عوام کے لیے اپنی ذمہ داریاں ادا کرتا رہے گا'۔

مغرب کا جواب

جرمن وزیر داخلہ تھامس ڈی میزیرے نے کہا کہ 'جمہوری اسلام' کے قیام کی ضرورت ہے تاہم اب دہشت گردی کو مذہب سے علیحدہ کرنے کے لیے بہت دیر ہوچکی ہے کیوں کہ دہشت گرد خود کو مسلمان کہتے ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ وہ پاکستانی وزیر دفاع کے تحفظات سمجھتے ہیں لیکن دہشت گردی کو مذہب سے علیحدہ کرنے سے لوگ کہیں گے کہ حکومتیں دہشت گردوں کے 'حقیقی پس منظر' کو چھپا رہی ہیں۔

سابق فرانسیسی وزیر ارنوڈ مونٹی بورگ نے کہا کہ یہ کہنا نامناسب ہے کہ تمام مسلمان دہشت گرد ہیں لیکن یہ بھی نامعقول بات ہے کہ کوئی ایک مذہب اور تشدد کے استعمال کے درمیان ربط کو دیکھنا نہ چاہے۔

انہوں نے کہا کہ اس جنگ میں ہمیں سب کی ضرورت ہے، لیکن سب کو آن بورڈ لینے کے لیے ضروری ہے کہ ہم حقیقت سے نظریں نہ چرائیں۔

ان کا کہنا تھا کہ دہشت گردی اور مذہب میں بہت زیادہ تعلق ہے۔

مونٹی بورگ نے کہا کہ 'یہ حقیقت ہے کہ سارے مسلمان دہشت گرد نہیں لیکن یہ بھی سچ ہے کہ سارے دہشت گرد مسلمان ضرور ہیں اور ان کا دعویٰ ہے کہ وہ دوسرے مسلمانوں سے زیادہ بہتر مسلمان ہیں'۔

مزید سفری پابندیاں لگیں گی

امریکی سیکریٹری برائے داخلی سیکیورٹی جان کیلی نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی سفری پابندیوں کی تفصیل بتاتے ہوئے کہا کہ امریک آنے والے مسافروں کی سخت اسکریننگ کی جائے گی۔

انہوں نے کہاکہ مسافروں کی جانچ کا انتہائی موثر نظام موجود ہے جس کے تحت مسافروں کے سفر کی تاریخوں، ٹکٹ کی جانچ، سامان کی تلاشی اور ادائیگی کے طریقہ کار کو دیکھا جاتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: چند مسلم ممالک کے لوگوں کا داخلہ محدود کرنا ضرروی: ٹرمپ

انہوں نے کہا کہ جانچ نسل، مذہب، ہیلتھ انفارمیشن یا سیاسی وابستگی دیکھ کر نہیں کی جاتی تاہم آئندہ ہفتے ڈونلڈ ٹرمپ اپنے سفری حکم نامے کا مزید سخت اور زیادہ موزوں ورژن جاری کریں گے تاکہ بیرون ملک سفر کرنے والوں کو پریشانی کا سامنا نہ کرنا پڑے جیسا کہ گزشتہ ماہ کرنا پڑا تھا۔

جب ان سے پوچھا گیا کہ وہ لوگ جو قانونی امریکی ویزا پر امریکا کا سفر کررہے ہیں یا گرین کارڈ ہولڈر ہیں تو ان کے ساتھ کیا ہوگا تو انہوں نے بتایا کہ اگر وہ امریکا کی جانب محو سفر ہیں تو جب وہ امریکا پہنچیں گے تو انہیں آنے کی اجازت ہوگی۔

انہوں نے بتایا کہ ایسا نظام لایا جائے گا جس کے ذریعے اس بات کو ممکن بنایا جاسکے کہ کسی دوسرے ملک سے ہی امریکا کے لیے پرواز میں سوار نہ ہونے دیا جائے تاہم اگر وہ امریکا آنے کے لیے طیارے میں سوار ہوگئے تو پھر انہیں امریکا میں داخل ہونے کی اجازت ہوگی۔


تبصرے (1) بند ہیں

taqdeer gul Feb 20, 2017 09:19am
سیاسی جماعتوں میں انتشار دھشت گردی کیخلاف جنگ کیلۓ سودمند نہیں جو بم دھماکوں کے بعد منظم ھونے کی بجاۓ آپس میں گتھم گتھا نظر آتی ھیں

کارٹون

کارٹون : 5 نومبر 2024
کارٹون : 4 نومبر 2024