درگاہ لعل شہباز قلندر میں خودکش دھماکا، 70 افراد جاں بحق
سہون میں درگاہ لعل شہباز قلندر کے احاطے میں خودکش دھماکے کے نتیجے میں خواتین و بچوں سمیت 70 افراد جاں بحق اور 150 سے زائد زخمی ہوگئے۔
ڈان نیوز کے مطابق دھماکا درگاہ لعل شہباز قلندر کے احاطے میں اس وقت ہوا جب وہاں دھمال ڈالی جارہی تھی، جبکہ دھماکے کے بعد لوگوں میں بھگدڑ مچ گئی اور درگاہ کے احاطے میں آگ لگ گئی۔
دھماکے کے بعد پولیس کی ٹیموں نے درگاہ لعل شہباز پہنچ کر جائے وقوع کو گھیرے میں لے لیا، جبکہ لوگوں نے اپنی مدد آپ کے تحت زخمیوں کو درگاہ کے قریب واقع ہسپتال منتقل کیا۔
انسپیکٹر جنرل (آئی جی) سندھ پولیس اے ڈی خواجہ کا کہنا تھا کہ ’اب تک 70 افراد ہلاک اور 150 سے زائد زخمی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ’زخمیوں میں سے بیشتر کی حالت تشویشناک ہے اور جیسے ہی نیوی کے ہیلی کاپٹرز اور سی ون 30 طیارہ قریبی ایئرپورٹ پہنچے گا، ان زخمیوں کو کراچی منتقل کیا جائے گا۔‘
اسسٹنٹ سپرنٹنڈنٹ پولیس (اے ایس پی) سہون کا کہنا تھا کہ ’خودکش حملہ سنہری گیٹ کے ذریعے درگاہ میں داخل ہوا اور دستی بم پھینک کر خود کو دھماکے سے اڑا لیا، جبکہ دستی بم نہیں پھٹا۔‘
شدید زخمیوں کو دادو اور جامشور کے ہسپتالوں میں منتقل کیا گیا جبکہ دادو، جامشور اور بھان سید آباد کے ہسپتالوں میں ایمرجنسی نافذ کردی گئی۔
مزید پڑھیں: پشاور میں ججز کی گاڑی پر خودکش حملہ، ڈرائیور ہلاک
ایس ایس پی جامشورو طارق ولایت نے ڈان سے بات کرتے ہوئے دھماکے کے خودکش ہونے کی تصدیق کی۔
ان کا کہنا تھا کہ ’خودکش دھماکا درگاہ میں خواتین کے حصے میں ہوا، جبکہ دھماکے کی جگہ سے ملنے والے سر کے خدو خال سے معلوم ہوتا ہے کہ حملہ آور خاتون تھی۔‘
’دہشت گردی کے حالیہ واقعات افغانستان سے‘
آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے سیہون دھماکے کے متاثرین کی فوری امداد کی ہدایت کی جس کے بعد پاک فوج، رینجرز اور میڈیکل ٹیمیں جائے وقوع کی طرف روانہ کردی گئیں۔
بعد ازاں دھماکے کے زخمیوں کو فوری ریسکیو کرنے کے لیے آرمی کے ہیلی کاپٹرز کے استعمال کا فیصلہ کیا گیا۔
پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا کہ نیوی کے ہیلی کاپٹر کے ذریعے زخمیوں کو ہسپتالوں تک پہنچایا جائے گا، جبکہ پاک فضائیہ کے ’سی ون 30‘ طیارے کو بھی ریلیف آپریشن میں استعمال کیا جائے گا۔
بیان کے مطابق ’دہشت گردی کے حالیہ واقعات افغانستان سے کیے جارہے ہیں، دہشت گردانہ کارروائیاں پاکستان مخالف غیر ملکی طاقتوں کی ایماء پر کی جارہی ہیں، جبکہ ان پاکستان مخالف قوتوں کو منہ توڑ جواب دیا جائے گا۔‘
آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کا کہنا تھا کہ ’عوام صبر و تحمل کا مظاہرہ کرے، کسی کو عوام کی جان و مال سے کھیلنے کی اجازت نہیں دیں گے، پاک فوج قوم کے ساتھ کھڑی ہے اور سیکیورٹی فورسز غیر ملکی طاقتوں کو اپنے مقاصد میں کامیاب نہیں ہونے دے گی۔‘
درگاہ لعل شہباز قلندر میں جمعرات کے روز دھمال ڈالی جاتی ہے اور زائرین کی بڑی تعداد مزار پر حاضری دیتی ہے۔
وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے آئی جی سندھ اور کمشنر حیدر آباد کو فون کرکے دھماکے کی تفصیلات طلب کرتے ہوئے پولیس اور ضلعی انتظامیہ کو فوری واقعے کی جگہ پہنچنے کی ہدایت کی۔
بعد ازاں ڈان نیوز سے بات کرتے ہوئے انہوں نے دھماکے کی مذمت اور اس میں قیمتی جانوں کی ضیاع پر افسوس کا اظہار کیا۔
ان کا کہنا تھا کہ ’کوشش ہے کہ زخمیوں کو جلد از جلد طبی امداد فراہم کی جاسکے اور اس سلسلے میں جامشورو، نوابشاہ اور حیدر آباد سے ڈاکٹرز کو روانہ کردیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’ہمارے پاس رات میں پرواز کرنے والے ہیلی کاپٹر نہیں ہیں اس لیے زخمیوں کی منتقلی کیلئے فوجی حکام سے ہیلی کاپٹر مانگے ہیں، جبکہ حکومت سندھ کے ہیلی کاپٹرز صبح میں سہون پہنچ جائیں گے۔‘
یہ بھی پڑھیں: بلوچستان: درگاہ شاہ نورانی میں دھماکا، 52 افراد ہلاک
یاد رہے کہ گزشتہ سال نومبر میں صوبہ بلوچستان کے ضلع خضدار میں درگاہ شاہ نورانی میں بھی زور دار بم دھماکا ہوا تھا، جس کے نتیجے میں 52 افراد ہلاک اور 100 سے زائد زخمی ہوئے تھے۔
دھماکے میں ہلاک اور زخمی ہونے والوں میں بڑی تعداد خواتین اور بچوں کی تھی۔
دہشت گردی کی نئی لہر
واضح رہے کہ پاکستان میں دہشت گردی کی حالیہ لہر 13 فروری کو لاہور کے مال روڈ کے دھماکے سے شروع ہوئی جہاں پنجاب اسمبلی کے سامنے دہشت گردوں نے خودکش حملہ کرکے 13 افراد کو ہلاک اور 85 کو زخمی کردیا۔
دھماکے کی ذمہ داری کالعدم تحریک طالبان پاکستان سے علیحدگی اختیار کرنے والے گروپ 'جماعت الاحرار' نے قبول کی تھی۔
13 فروری کو ہی کوئٹہ میں سریاب روڈ میں واقع ایک پل پر نصب دھماکا خیز مواد کو ناکارہ بناتے ہوئے بی ڈی ایس کمانڈر سمیت 2 افراد جاں بحق ہوگئے تھے۔
مزید پڑھیں: پنجاب اسمبلی کے سامنے خودکش دھماکا،ڈی آئی جی ٹریفک سمیت 13 ہلاک
اس کے بعد 15 فروری کو وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقے فاٹا کی مہمند ایجنسی میں خودکش حملے کے نتیجے میں خاصہ دار فورس کے 3 اہلکاروں سمیت 5 افراد جاں بحق ہوگئے تھے۔
اس حملے کی ذمہ داری بھی کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) سے الگ ہونے والے گروپ ’جماعت الاحرار’ نے قبول کی تھی۔
15 فروری کو ہی پشاور میں ایک خود کش حملہ آور نے ججز کی گاڑی کو نشانہ بنایا جس کے نتیجے میں گاڑی کا ڈرائیور ہلاک ہوگیا تھا۔
کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) نے حملے کی ذمہ داری قبول کی تھی۔
خود کش دھماکوں کے ساتھ ساتھ ملک کے مختلف علاقوں میں سیکیورٹی فورسز کے قافلوں کو بھی نشانہ بنایا جارہا ہے، جمعرات 16 فروری کو بلوچستان کے علاقے آواران میں سڑک کنارے نصف دیسی ساختہ بم پھٹنے سے پاک فوج کے ایک کیپٹن سمیت 3 اہلکار جاں بحق ہوئے۔
تبصرے (1) بند ہیں