• KHI: Asr 4:12pm Maghrib 5:49pm
  • LHR: Asr 3:27pm Maghrib 5:04pm
  • ISB: Asr 3:26pm Maghrib 5:04pm
  • KHI: Asr 4:12pm Maghrib 5:49pm
  • LHR: Asr 3:27pm Maghrib 5:04pm
  • ISB: Asr 3:26pm Maghrib 5:04pm

پاناماکیس: چیئرمین نیب، ایف بی آر ریکارڈ سمیت طلب

شائع February 16, 2017

اسلام آباد: سپریم کورٹ میں پاناما پیپرز کیس کی سماعت کے دوران آج بھی دستاویزات کا معاملہ حاوی رہا، عدالت عظمیٰ نے وزیراعظم کے صاحبزادوں حسن اور حسین نواز کے وکیل سے استفسار کیا کہ اربوں روپے کا معاملہ ہے اور آپ کہہ رہے ہیں ایک بھی دستاویز نہیں ہے۔

دوسری جانب سلمان اکرم راجا نے آج بھی پاناما لیکس کی تحقیقات عدالت عظمیٰ کی جانب سے کرنے کی مخالفت جاری رکھی اور کہا کہ اس معاملے پر عدالت کمیشن بناسکتی ہے، جس پر جسٹس عظمت سعید کا کہنا تھا کہ عدالت کا وقت ضائع کیا جارہا ہے۔

یاد رہے کہ سپریم کورٹ کے سینئر جج جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بینچ 4 جنوری سے ان درخواستوں کی سماعت کررہا تھا، بینچ کے دیگر ارکان میں جسٹس اعجاز افضل خان، جسٹس گلزار احمد، جسٹس شیخ عظمت سعید اور جسٹس اعجاز الحسن شامل ہیں۔

31 جنوری کو ہونے والی سماعت کے بعد لارجر بینچ کے رکن جسٹس شیخ عظمت سعید کو دل کی تکلیف کے باعث سماعت ملتوی کردی گئی تھی جس کا دوبارہ سے آغاز پندرہ روز بعد گذشتہ روز (15 فروری) کو ہوا اور وزیراعظم کے صاحبزادوں حسن اور حسین کے وکیل سلمان اکرم راجا نے دلائل کے دوران 8 عدالتی سوالوں کا جواب جمع کروایا تھا، جس میں کہا گیا تھا کہ ان کے مؤکل کی جمع کرائی گئی دستاویزات کے خلاف کوئی ثبوت فراہم نہیں کیا گیا لہذا مزید دستاویز فراہم کرنا ان کی ذمہ داری نہیں۔

جواب میں عدالت کو مزید بتایا گیا تھا کہ عدالت عظمیٰ تفتیش طلب معاملے کی تفتیش کرنے کا اختیار رکھتی ہے۔

آج (16 فروری) کی سماعت میں بھی سلمان اکرم راجا نے اپنے دلائل جاری رکھے اور اس بات پر زور دیا کہ عدالت اس معاملے میں کمیشن بنا سکتی ہے۔

جس پر جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ عدالت کمیشن بناسکتی ہے یا معاملہ متعلقہ اداروں کو بھی بھیج سکتی ہے تاہم انہوں نے بعض افراد کی جانب سے اداروں کے کام نہ کرنے کے بیانات کی بھی نشاندہی کی اور سوال کیا کہ اس صوت میں اب عدالت کیا کرے؟

اس موقع پر جسٹس عظمت سعید شیخ نے کہا کہ عدالت کا وقت ضائع کیا جارہا ہے، اب تک کوئی کام نہیں ہوا۔

مزید پڑھیں:پاناماکیس:’1999میں تمام خاندانی دستاویزات ضائع ہوچکی ہیں‘

جسٹس کھوسہ نے استفسار کیا کہ کیا سپریم کورٹ خود سے کمیشن تشکیل دے کر انکوائری نہیں کر سکتی۔

جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ کمیشن کا کام شواہد اکٹھے کرنا ہے، جس پر سلمان اکرم راجا نے جواب دیا کہ کمیشن کسی شخص کو سزا یا جزا نہیں دے سکتا، وہ صرف انکوائری کے نتیجے میں اپنی رائے دے سکتا ہے جبکہ فوجداری معاملے کا ٹرائل کمیشن نہیں کر سکتا۔

جس پر جسٹس کھوسہ نے کہا کہ ہم یہاں شواہد ریکارڈ نہیں کر رہے، مقدمے کی نوعیت کیا ہے اس کا فیصلہ آخر میں کریں گے۔

یاد رہے کہ گذشتہ روز بھی سلمان اکرم راجا نے دلائل دیتے ہوئے کہا تھا کہ پاناما کیس کوئی فوجداری مقدمہ نہیں، اس لیے اگر حسن اور حسین نواز ملزم بھی ہیں، تو ان کے خلاف کوئی ثبوت موجود نہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ یہ واضح کرچکی ہے کہ عوامی مفاد کے مقدمے میں کسی کو ملزم قرار نہیں دیا جاسکتا۔

سلمان اکرم راجا کا مزید کہنا تھا کہ قانون کے مطابق بنائے گئے اداروں کو ان کا کام کرنے دیا جائے، سپریم کورٹ خود انکوائری نہیں کر سکتی صرف کمیشن بنانے کا حکم دے سکتی ہے۔

'اتنے بڑے کاروبار، لین دین کا کوئی حساب نہیں'

سماعت کے دوران پانچ رکنی لارجر بنچ کے سربراہ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے سلمان اکرم راجا سے سوال کیا کہ کیا دستاویزات نہ دینا اُن کی حکمت عملی کا حصہ ہے؟ جس کا جواب سلمان اکرم راجا نے نفی میں دیا۔

جسٹس کھوسہ نے سلمان اکرم راجا سے استفسار کیا کہ آپ کہتے ہیں کہ ہمیں سارا سرمایہ قطری نے دیا، اتنے بڑے کاروبار اور لین دین کا آپ نے کوئی حساب نہیں رکھا۔

یہ بھی پڑھیں:پاناما کیس: سپریم کورٹ کا قطری سرمایہ کاری سے متعلق استفسار

سلمان اکرم راجا نے کہا کہ عدالت کو دیکھنا ہے کہ کیا یہ جرم ہے یا ریکارڈ نہ رکھنے میں کوئی لاقانونیت ہے اور اس حوالے سے قانون کیا کہتا ہے۔

جسٹس کھوسہ نے کہا کہ آپ کے کیس میں دو باتیں ہو سکتی ہیں، یا ہم قطری والا موقف تسلیم کریں یا نہ کریں، ساتھ ہی ان کا کہنا تھا کہ آپ کے پاس ایک یہ ہی موقف ہے اور دستاویزات نہیں ہیں۔

سلمان اکرم راجا نے جواب دیا کہ میرے پاس جو دستاویزات تھیں پیش کر دیں، اب اگر آپ قطری والا موقف تسلیم نہیں کرتے تو پھر درخواست گزار کو ثابت کرنا ہے کہ ہم نے کیا جرم کیا ہے۔

جسٹس کھوسہ نے جواب دیا کہ 'اسی لیے تو میں کہ رہا ہوں کہ آپ جوا کھیل رہے ہیں اور جوا کسی کے حق میں بھی جا سکتا ہے'۔

اس موقع پر جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ 'مقدمہ صرف یہ ہے کہ مریم نواز جائیداد کی بینیفیشل ٹرسٹی ہیں یا نہیں'۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ دوسرا مقدمہ سراج الحق کا ہے جس میں وہ کہہ رہے ہیں کہ کرپشن کو نظر انداز نہ کیا جائے اور ملوث افراد کو نا اہل قرار دیا جائے، ساتھ ہی جسٹس عظمت نے کہا کہ 'اگر وہ ثابت کرتے ہیں تو ٹھیک، ورنہ سراج الحق کی درخواست سیاسی رقابت ہی سمجھی جائے گی'۔

سلمان اکرم راجا نے دلائل کے دوران موزیک والی دستاویزات فراڈ کرکے تیار کرنے کا بھی خدشہ ظاہر کیا۔

انہوں نے نشاندہی کی کہ موزیک نے اپنی دستاویز سے لاتعلقی کا اظہار کیا ہے جبکہ وزیراعظم کی صاحبزادی مریم نواز نے دستاویز پر دستخط سے انکار کیا ہے۔

جسٹس اعجاز افضل نے سوال کیا کہ یہ دستاویز کہاں سے آئی؟

جس پر سلمان اکرم راجا نے پھر خیال ظاہر کیا کہ مریم نواز کے بینیفیشل مالک ہونے کی جعلی دستاویز عدالت میں جمع کرائی گئی ہے۔

سماعت کے بعد عدالت عظمیٰ نے قومی احتساب بیورو (نیب) اور فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کے چیئرمین کو ریکارڈ سمیت طلب کرتے ہوئے کیس کی سماعت منگل (21 فروری) تک لیے ملتوی کردی۔

حسین نواز کے ملکیتی فلیٹس کی دستاویزات جمع

وزیراعظم کے صاحبزادوں کے وکیل سلمان اکرم راجا نے حسین نواز کے ملکیتی فلیٹس سے متعلق تازہ ترین دستاویزات بھی سپریم کورٹ میں جمع کروائیں۔

ان تفصیلات میں لندن فلیٹس کی ملکیتی دستاویزات بھی شامل ہیں، جن میں چاروں فلیٹس کی ملکیت 2006ء سے ظاہر کی گئی ہے۔

دستاویزات کے مطابق حسین نواز نے لین دین کے لیے فیصل ٹوانہ کو اپنا نمائندہ مقرر کیا اور بارکلے بینک کے ذریعے ارینا لمیٹڈ نے منروا کمپنی کو 2014 میں ادائیگیاں کیں۔

کمپنیوں کے آڈٹ سے متعلق تفصیلات کو بھی بھی دستاویزات کا حصہ بنایا گیا ہے۔

یاد رہے کہ پاناما لیکس کی تحقیقات کے لیے سپریم کورٹ میں آئینی درخواستیں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی)،جماعت اسلامی پاکستان (جے آئی پی)، عوامی مسلم لیگ (اے ایم ایل)، جمہوری وطن پارٹی (جے ڈبلیو پی) اور طارق اسد ایڈووکیٹ کی جانب سے دائر کی گئی تھیں۔

کارٹون

کارٹون : 22 دسمبر 2024
کارٹون : 21 دسمبر 2024