سینیٹ میں افسران کو ریٹائرمنٹ پر ملنے والے 'فوائد' کی باز گشت
اسلام آباد: پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) سے تعلق رکھنے والے سینیٹر فرحت اللہ بابر نے سرکاری افسران کو ریٹائرمنٹ کے بعد دیے جانے والے 'فوائد' سے متعلق قانون پر دوبارہ جائزہ لینے کا مطالبہ کردیا۔
عوامی اہمیت کے ایک نقطہ پر بات کرتے ہوئے فرحت اللہ بابر نے سرکاری افسران کی جانب سے پیش کی گئی خدمات کے عوض انھیں ریٹائرمنٹ کے بعد الاٹ کی جانے والی زمین کے معاملے کو اٹھایا۔
کسی کا نام لیے بغیر سینیٹر کا کہنا تھا کہ یہ معاملہ متعدد سوالات کو جنم دیتا ہے، جس میں یہ بات بھی شامل ہے کی کیا یہ الاٹمنٹ حکومت کے قوانین اور قواعد و ضوابط کے مطابق ہیں، یہ قوانین کب اور کس نے بنائے اور آیا ان پر ماضی میں بھی عمل درآمد ہوا ہے اور آیا ان قوانین پر مستقبل میں عمل درآمد کی ضرورت ہے۔
انھوں نے سابق جنرل راحیل شریف کو ریٹائرمنٹ کے بعد 90 ایکٹر زرعی اراضی الاٹ کیے جانے سے متعلق رپورٹس کی 'بظاہر نشاندہی' کرتے ہوئے کہا کہ 'ایک سوال یہ بھی اٹھتا ہے کہ سینئر افسران کو غیر معمولی استحقاق دینے کا اختیار کس کے پاس ہے'۔
ان کا ماننا تھا کہ اس معاملے نے ملک میں ایک بحث کا آغاز کردیا ہے جو پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کو یہ واضح کرنے کیلئے زور دیتی ہے کہ اس قسم کی الاٹمنٹ کی آئینی حیثیت کیا ہے۔
پی پی پی کے سینیٹر کا کہنا تھا کہ یہ مسئلہ نہ صرف حساس ہے بلکہ انتہائی اہم بھی ہے، اور ساتھ ہی سینیٹ کی متعلقہ کمیٹی کے ذریعے ان کیمرہ سیشن میں اس کے جائزے کا مطالبہ بھی کیا۔
تاہم سینیٹ کے چیئرمین رضا ربانی نے اس پر فیصلہ محفوظ کیا اور کہا کہ سرکاری افسران کو ریٹائرمنٹ کے بعد ملنے والے 'فوائد' پر مناسب انداز میں کارروائی کیلئے غور کریں گے۔
دلچسپی کی بات یہ ہے کہ پی پی پی کے سینیٹر نے اپنے بیان میں کسی بھی شخص کا نام نہیں لیا لیکن چیئرمین کا کہنا تھا کہ ان کا اقدام کسی ایک شخص کو ٹارگٹ کرنے کیلئے نہیں ہونا چاہیے۔
ملک میں دہشت گردی کی نئی لہر
سینیٹ چیئرمین نے حال ہی میں ملک میں ہونے والے دہشت گردی کے حملوں پر حکومت کو اپنا موقف پیش کرنے اور دہشت گرد گروپ کی جانب سے جاری کی گئی نئی ویڈیو میں قانون نافذ کرنے والے اداروں اور اہم تنصیبات پر حملوں کی دھمکی پر حکومتی پوزیشن پر تفصیلات طلب کیں ہیں۔
انھوں نے پاکستان مسلم لیگ کے پارلیمانی لیڈر مشاہد اللہ خان کو وزیر مملکت برائے داخلہ بلیغ الرحمٰن کی جمعرات کے روز سینیٹ میں موجودگی کو یقینی بنانے کی ہدایات بھی کیں تاکہ وہ حالیہ دہشت گردی کے حملوں اور جماعت الحرار کی جانب سے جاری کی جانے والی ویڈیو پر سینیٹ کو بریفنگ دیں۔
یہ ہدایت سابق وزیر داخلہ رحمٰن ملک کی جانب سے پشاور میں خود کش دھماکے کی خبر دیے جانے کے بعد کی گئی۔
انھوں نے کہا کہ حالیہ دنوں میں دہشت گردوں نے صوبائی دارالحکومتوں کو نشانہ بنایا ہے، ان کا کہنا تھا کہ دہشت گردوں نے ایک ویڈیو بھی جاری کی ہے جس میں ملک بھر میں حملوں کی دھمکی دی گئی ہے۔
سینیٹر رحمٰن ملک کا کہنا تھا کہ دہشت گردوں نے اپنے پیغام میں اسے 'غازی فورس' کا نام دیا ہے لیکن گروپ خود کو جماعت الحرار سے علیحدہ بتارہا ہے۔
انھوں نے کہا کہ 'کیا اس گروپ کا نام کالعدم قرار دی جانے والی تنظیموں کی فہرست میں ہے؟ کیا یہ غیر ملکی مالی تعاون سے چلنے والا گروپ ہے؟ ان باتوں کی تفصیلات بتانا حکومت کی ذمہ داری ہے'۔
ان کا کہنا تھا کہ دوسری جانب حکومت اس قسم کے حملوں کی ذمہ داری افغانستان اور بھارت پر عائد کررہی ہے، جبکہ یہ دعویٰ بھی کیا گیا ہے کہ ان حملوں کا مقصد آئندہ ماہ لاہور میں ہونے والے پاکستان سپر لیگ کرکٹ ٹورنامنٹ (پی ایس ایل) کے فائنل کو سبوتاژ کرنا ہے۔
پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے عثمان کاکڑ نے افغانستان کو دشمن ملک کہنے پر رحمٰن ملک کو تنقید کا نشانہ بنایا۔
تاہم رحمٰن ملک نے ایوان میں دوبارہ بات کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ ان کے پاس افغان انٹیلی جنس ایجنسی کے کردار کے حوالے سے تفصیلات موجود تھیں، جن میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ وہ پاکستان میں ہونے والے حملوں میں 100 فیصد ملوث ہے۔
انھوں نے کہا کہ ان کی افغانستان سے کوئی دشمنی نہیں ہے لیکن یہ حقیقت ہے کہ کابل طالبان کے چیف ملا فضل اللہ کو تحفظ فراہم کررہا ہے جیسا کہ اس سے قبل وہ فقیر محمد کو فراہم کررہا تھا۔
انھوں نے مطالبہ کیا کہ انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) کے حکام 'بھارت اور افغانستان کے گٹھ جوڑ' پر ایوان کو بریفنگ دیں۔
اس موقع پر عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) کے شاہی سید نے تجویز دی کہ دہشت گردی کے حالیہ واقعات پر موقف حاصل کرنے کیلئے ایوان میں چاروں صوبوں کے انسپکٹر جنرلز (آئی جیز) آف پولیس طلب کیا جائے۔
اے این پی سینیٹر نے دعویٰ کیا کہ آئی جیز اور ڈی آئی جیز کے پاس اختیارات نہیں ہیں اور وہ سیاسی دباؤ کے باعث کوئی کارروائی نہیں کر سکتے۔
پی آئی اے طیارے کی فروخت
پارلیمانی امور کے وفاقی وزیر شیخ آفتاب نے ایوان بالا کو بتایا کہ حکومت کو ان رپورٹس کی اطلاعات نہیں ہے کہ پی آئی اے کا طیارہ اے 310 جرمنی فرم کو فروخت کیا گیا ہے، جو قانون کی خلاف ورزی ہے۔
اپوزیشن اراکین کے توجہ دلاؤ نوٹس کا جواب دیتے ہوئے پارلیمانی امور کے وفاقی وزیر نے کہا کہ حکومت اس معاملے کی تحقیقات کیلئے ایک کمیٹی پہلے ہی تشکیل دے چکی ہے جس کی رپورٹ ایک ہفتے میں مکمل ہونے کی اُمید ہے۔
اس معاملے کی نشاندہی کرتے ہوئے پی پی پی کے سینیٹر سلیم مانڈوی والا نے الزام لگایا کہ نیلامی کے بغیر پی آئی اے کا طیارہ جرمنی کی فرم کو دیا گیا ہے، جبکہ اس کی بولی کیلئے پاکستان ایئر لائنز کی جانب سے اشتہار دیا گیا تھا۔
انھوں نے کہا کہ مذکورہ طیارے کو جرمنی لے جانے والا پی آئی اے کا پائلٹ تمام تفصیلات بتانے کیلئے تیار ہے۔
پالیمانی امور کے وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ ادارے کی جانب سے دیئے گئے اشتہار کے جواب میں کسی نے بھی بولی میں دلچسپی کا اظہار نہیں کیا تھا اور یہ طیارہ جرمنی کی ایک فرم کو دیا گیا ہے جو 28 سال پرانے طیارے کو میوزیم میں رکھنا چاہتی تھی۔
سینیٹ چیئرمین رضا ربانی نے معاملے کو پی آئی اے کی خصوصی کمیٹی کی ذیلی کمیٹی کو منتقل کرتے ہوئے طنزیہ انداز میں پوچھا کہ 'کیا اس طیارے کو ہٹلر نے استعمال کیا تھا؟'