سینیٹ کا ریاست کے اہم امور میں اختیارات بڑھانے کا مطالبہ
اسلام آباد: سینیٹ نے ایک قرار داد کے ذریعے وفاقی اکائیوں کے حقوق محفوظ کرنے کیلئے کردار اور اختیارات بڑھانے کا مطالبہ کردیا ہے اور وفاق کے معاملات میں صوبوں کے کردار کو با معنی بنانے کی یقین دہانی کرائی ہے۔
سینیٹرز کی جانب سے پیش کی جانے والی قرار داد کی متفقہ منظوری کے مطالبے میں مرکز اور صوبوں کے درمیان تعلقات اور پارلیمنٹ کے جوائنٹ سیشن کے حوالے سے آئین میں موجود متعدد آرٹیکلز میں ترامیم کرنے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔
یہ قرار داد قائد ایوان راجہ ظفر الحق کی جانب سے اجلاس کے آغاز میں پیش کی گئی تھی، جس میں اراکین نے انسداد دہشت گردی کے لیے نیشنل ایکشن پلان (این پی اے) کی موجود صورت حال اور ملک میں اس کے نفاذ کے حوالے سے بحث کی۔
وزیر مملکت برائے داخلہ بلیغ الرحمٰن کی جانب سے حکومت کی مجموعی کارکردی کی تعریف اور سیکیورٹی صورت حال میں بہتری کے دعوے کے کچھ ہی لمحوں کے بعد سینیٹ کے چیئرمین رضا ربانی نے ایوان کو بتایا کہ انھوں نے ابھی لاہور میں ہونے والے خود کش دھماکے کی خبر سنی ہے۔
قرار داد میں 18 ویں ترمیم اور 2010 میں صوبوں کو مزید اختیارات متعارف کرائے جانے سے متعلق وفاق اور صوبوں کے درمیان تعلقات کے حوالے سے آئین کے 11 آرٹیکلز میں ترامیم کا مطالبہ کیا گیا تھا۔
قرار داد میں آئین کے آرٹیکل 160 میں ترمیم کا مطالبہ کیا گیا تھا جس کے تحت نیشنل فنانس کمیشن (این ایف سی) ایواڈ میں توسیع کے لیے حکومت کو سینیٹ کی اجازت حاصل کرنا ہوگی۔
اس کے علاوہ سینیٹ کو صوبوں کے شیئر میں ایک فیصد اضافے کا حق بھی دیا گیا ہے۔
منظور کی جانے والی ترمیم کے مطابق 'اگر آئندہ سال کا این ایف سی ایواڈ پانچ سال میں اعلان نہ کیا گیا تو حکومت، سینیٹ سے گذشتہ سال کے ایواڈ میں مزید ایک سال کی توسیع کرنے کی منظوری حاصل کرسکتی ہے، اور سینیٹ کی جانب سے توسیع کی صورت میں وہ صوبوں کے شیئرز میں ایک فیصد کا اضافہ بھی کرسکتی ہے'۔
سینیٹ کے پاس اس بات کا اختیار ہوگا کہ وہ حکومت کی جانب سے ہر مرتبہ مذکورہ ایواڈ میں توسیع کے مطالبے پر اس میں صوبوں کا شیئر ایک فیصد تک بڑھا دے۔
ایک اور ترمیم کے ذریعے سینیٹ نے مشترکہ پارلیمنٹ کے اجلاس کے دوران قانون سازی کیلئے برابر ووٹ کے حقوق کا فارمولا وضع کرنے کا مطالبہ بھی کیا۔
اس فارمولے کے تحت 'ایک سینیٹر کا ووٹ قومی اسمبلی کے 3 اراکین کے ووٹ کے برابر ہوگا'۔
قرار داد کی منظوری کے بعد رضا ربانی کا کہنا تھا کہ اس وقت سینیٹرز کے 103 مجموعی ووٹ کسی پیش رفت کا باعث نہیں ہوسکتے اگر قومی اسمبلی کے 342 ووٹ ان کے خلاف ہوں۔
اس کے علاوہ قرار داد کے ذریعے آئین کے آرٹیکل 159 فور میں بھی ترمیم کا مطالبہ کیا گیا، جس کے تحت سینیٹ کے پاس وفاقی حکومت اور صوبوں کے درمیان کسی بھی قسم کے تنازعات کو حل کرنے کا اختیار مل جائے گا، ان میں صوبوں پر موجود مرکز کے قوانین بھی شامل ہیں۔
اس وقت ایسے تنازعات کے حل کیلئے چیف جسٹس آف پاکستان کی جانب سے ایک ثالث مقرر کیا جاتا ہے۔
سینیٹرز کی جانب سے یہ تجویز بھی پیش کی گئی کہ وزراء اعلیٰ کو سینیٹ سے براہ راست خطاب کرنے کا حق بھی دیا جانا چاہیے۔
قرار داد میں آئین کے آرٹیکل 62 میں ترمیم کا مطالبہ بھی کیا گیا کس کے تحت عام اتنخابات میں حصہ لینے کے خواہش مند فرد کا اس صوبے میں کم سے کم 5 سال تک رہائش پذیر رہنا لازمی قرار دیا جائے گا۔
تاہم آئین کے مطابق اس وقت ایسی کوئی شرط موجود نہیں ہے، جس کی وجہ سے اس چھوٹ کا غلط استعمال کرتے ہوئے بیشتر صوبے سے باہر کے افراد کو الیکشن میں حصہ دلوایا جاتا ہے۔
اسی طرح سینیٹرز نے یہ تجویز بھی پیش کی کہ قومی اسمبلی کے اسپیکر کے بجائے مشترکہ پارلیمانی اجلاس کی صدارت چیئرمین سینیٹ سے کروائی جائے۔
نیشنل ایکشن پلان پر بحث
اس سے قبل بحث کرتے ہوئے اپوزیشن سے تعلق رکھنے والے سینیٹرز نے انسداد دہشت گردی کیلئے نیشنل ایکشن پلان (این ایف سی) پر عمل درآمد میں ناکامی پر حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا۔
پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے فرحت اللہ بابر نے کہا کہ جب ریاست 'کچھ عسکریت پسندوں کو خطے کے ممالک کو نشانہ بنانے کی اجازت دینے اور نفرت انگیز تقاریر بند نہ کرنے کی اپنی پالیسی' کو ترک نہیں کردیتی دہشت گردی کے خلاف جنگ ایک فریب ہی رہے گی۔
اقوام متحدہ میں ایک کالعدم تنظیم کے سربراہ پرپابندی کے خلاف پالیسی پر سوال کرتے ہوئے ان کا کہا تھا کہ اس طرح کی کچھ غیر انسانی پالیسز کی وجہ سے ہمارے ارادوں اور پالیسز پر سوال اٹھائے جاتے ہیں۔
فرحت اللہ خان بابر نے کہا کہ ریاست کو عسکریت پسندی کے خلاف اپنی ترجیحات کو واضح کرنا چاہیے۔
انھوں نے سوال کیا کہ 'کیا ہم صرف ان عسکریت پسندوں کے خلاف کارروائی کررہے ہیں جو ہمارے شہریوں کو نشانہ بنارہے ہیں یا ہم ان کے خلاف کارروائی بھی عمل میں لائیں گے جو سرحد پار دہشت گرد میں ملوث ہیں'۔
پی پی پی کی سحر کامران اور سسی پلیجو، متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کے طاہر مشہدی، نیشنل پارٹی کے شاہی سید اور پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے عثمان کاکڑ نے نیشنل ایکشن پلان کے حوالے سے حکومت کے مبینہ طور پر غیر ذمہ دارانہ رویے اور مدارس کے خلاف کارروائی عمل میں نہ لانے کو تنقید کا نشانہ بنایا۔
بحث کو سمیٹتے ہوئے وزیر مملکت برائے داخلہ کا کہنا تھا کہ وزیراعظم خود نیشنل ایکشن پلان پر عمل درآمد کی نگرانی کررہے ہیں اور اس پر لازمی عمل درآمد کو یقینی بنانے کیلئے متعدد اجلاس بھی منعقد ہوئے ہیں۔
انھوں نے دعویٰ کیا کہ نیشنل ایکشن پلان پر عمل درآمد کی وجہ سے دہشت گردی کے واقعات میں واضح کمی آئی ہے۔
نفرت انگیز تقاریر کے حوالے سے وزیر کا کہنا تھا کہ اس حوالے سے قائم کیے جانے والے شکایتی نمبر 1717 پر 250000 کالز موصول ہوئی ہیں جن کے تحت 16000 مقدمات درج کیے گئے جبکہ 1435 ملزمان کو گرفتار کیا گیا ہے۔
مدارس کی نقشوں پر نشاندہی کے اقدامات کے حوالے سے بلیغ الرحمٰن کا کہنا تھا کہ وفاقی دارالحکومت اسلام آباد، سندھ اور پنجاب میں مدارس کی نقشوں پر نشاندہی کا کام 100 فیصد مکمل ہوچکا ہے جبکہ خیبرپختونخوا میں 75 فیصد، بلوچستان میں 65 فیصد اور وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقوں (فاٹا) میں یہ کام 80 فیصد تک مکمل ہوچکا ہے۔