پی ایس ایل حکام کے منہ پر طمانچہ
مجھے اس بات سے غرض نہیں ہے کس کھلاڑی نے کتنی کرپشن کی ہے اور اب مزید کتنے کھلاڑیوں کا نام اس اسکینڈل میں آئے گا۔ یہ بات بھی میری دلچسپی کا باعث نہیں ہے کہ ان کھلاڑیوں کو جرم ثابت ہونے پر کتنی سزا دی جاتی ہے مگر حیرت اُن لوگوں پر ہے جو پاکستان سپر لیگ میں ہونے والی کرپشن کی کہانیاں سنا کر اپنا سینہ پھُلا رہے ہیں کیونکہ کھلاڑیوں کے اس عمل میں اُن کا بھی کچھ نہ کچھ کردار ضرور ہے جسے وہ چھپانے کی کوشش کررہے ہیں۔
پاکستان سپر لیگ کے دوسرے دن ہی لیگ کے چیئرمین نے کرپشن میں ملوث دو کھلاڑیوں کے ناموں کا اعلان کرکے دھماکہ کیا اورایسا محسوس ہوا کہ انہوں نے دو کھلاڑیوں کو ’’پکڑ‘‘ کر کوئی بہت کارنامہ سر انجام دیا ہو۔ کیا اس لیگ کو کرپشن سے دور رکھنا لیگ کے چیئرمین نجم سیٹھی اور پاکستان کرکٹ بورڈ کی ذمہ داری نہیں تھی؟دو کھلاڑیوں کو پکڑ کر بغلیں بجانے والوں کو شرم سے منہ چھپا لینا چاہیے کہ اُن کی ناک کے نیچے یہ سب کچھ ہوتا رہا اور وہ غافل رہے یا پھر انہوں نے خود ’’ہیرو‘‘ بننے کیلئے لیگ کے آغاز میں ایسا کیا ورنہ کھلاڑیوں اور بُک میکرز کے رابطے تو پی ایس ایل شروع ہونے سے پہلے سے چل رہے تھے۔
شرجیل خان اور خالد لطیف سمیت پانچ مزید کھلاڑیوں کا نام کرپشن کیساتھ نتھی کیا جارہا ہے ۔یہ ابھی اس معاملے کی ابتدا ہے اور آنے والے دنوں میں کچھ اور ’’پردہ نشین‘‘ بھی سامنے آئیں گے جو پی ایس ایل میں شریک ٹیموں کے کھلاڑیوں کی ’’رہنمائی‘‘ کررہے ہیں۔ان کھلاڑیوں کا جرم کتنا بڑا ہے ؟یہ کس طرح بک میکرز کے جال میں پھنسے؟ کس قیمت پر انہوں نے ملک کا نام اور اپنا کیرئیر داؤ پر لگایا؟
یہ ایسے سوالات ہیں جن کا جواب آنے والے دنوں میں مل جائے گا لیکن سب سے اہم سوال یہ ہے کہ جنہوں نے کھلاڑیوں کو بچانا تھا وہ اُس وقت کیا کررہے تھے؟ کیا پاکستان کرکٹ بورڈ اور پی ایس ایل انتظامیہ میں اتنی اہلیت نہیں کہ وہ ان کھلاڑیوں کو اخلاقی طور پر اتنا مضبوط بناتی کہ وہ ناجائز پیسوں کیلئے وطن کی عزت کا سودا نہ کرتے۔
پاکستان کرکٹ بورڈ کا اینٹی کرپشن یونٹ خاصا مضبوط اور فعال ہے۔ نیشنل اکیڈمی میں بھی آئے دن کھلاڑیوں کو کرپشن سے دور رہنے پر لیکچرز دیے جاتے ہیں۔انہیں ’’ڈرایا‘‘ جاتا ہے کہ کرپشن کا ناسور ایک ہی لمحے میں اُن سے عزت، دولت اور شہرت سب کچھ چھین سکتا ہے لیکن یہ سب وہ باتیں ہیں جو محض باتوں تک محدود ہیں اور عملی طور پر کچھ اور ہی ہوتا ہے۔
کیا پاکستان کرکٹ بورڈ کے ایوانوں میں ایسے لوگ موجود نہیں ہیں جن کا ماضی داغدار ہے؟ کیا پاکستان کی عزت کا سودا کرنے والے اس وقت پاکستان کی کرکٹ ٹیم میں پوری شان و شوکت کے ساتھ موجود نہیں ہیں؟ اورفینسی فکسنگ کیخلاف تقریریں کرکے شہرت حاصل کرنے والے سابق کھلاڑیوں کے ’’شاگرد‘‘ خود فینسی فکسنگ میں ملوث ہوں تو اس کا مطلب ہے کہ آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے اور اس ماحول میں نئے کھلاڑیوں کو یہ ترغیب مل رہی ہے کہ وہ بھی دو ڈاٹ بالز کھیل کر دو ملین روپے کما لیں!
کیا یہ محض اتفاق سمجھا جائے کہ 2010ء میں تین پاکستانی کھلاڑیوں پر عائد ہونے والی پابندی کے بعد پانچ سال تک پاکستان کرکٹ سے کرپشن کی بو نہیں آئی اور جیسے ہی ان میں سے ایک کھلاڑی دوبارہ انٹرنیشنل کرکٹ میں واپس آیا تو کرپشن کی بدنامی کا یہ پھندا ایک مرتبہ پھر پاکستان کرکٹ کی گردن پر دباؤ بڑھا رہا ہے۔
میں یہاں میچز کا حوالہ نہیں دینا چاہتا لیکن محدود اوورز میں پاکستان کی گزشتہ ایک سال کی پرفارمنس اُٹھا کر دیکھ لیں اُس میں بہت سے کھلاڑیوں کا کردار واضح ہوجائے گا کہ کس طرح انہوں نے انڈر پرفارم کرتے ہوئے میچ کو دوسری ٹیم کی طرف شفٹ کیا۔
پاکستان سپر لیگ میں جو کھلاڑی کرپشن کے مرتکب ہوئے ہیں اُن کا کسی صورت بھی دفاع نہیں کیا جاسکتا بلکہ جرم ثابت ہونے پر ایسے کھلاڑیوں کو نشانہ عبرت بنانا بہت ضرورت ہے لیکن یہ کام پاکستان کرکٹ بورڈ کو بہت پہلے کرنا چاہیے تھا کہ جب تین کھلاڑیوں نے 2010ء میں پاکستان کا نام داغدار کرنے کی کوشش کی تھی تو انہیں عمر بھر کیلئے پابندی کا شکار کیا جاتا تاکہ مستقبل میں کوئی دوسرا کھلاڑی ایسا کام کرنے کی جرات نہ کرتا مگر پی سی بی نے ایسا نہیں کیا بلکہ ایک ’’سزا یافتہ‘‘ فاسٹ باؤلرکی واپسی کیلئے بھرپور کردار ادا کیا۔
جو لوگ کرکٹ کرپشن کیخلاف کھل کر بولتے تھے وہ اب پی ایس ایل میں کچھ روپوں کی خاطر اسی داغدار کھلاڑی کے ’’مینٹور‘‘بنے ہوئے ہیں۔ جب آپ ایسی مثالیں سامنے رکھیں گے تو اس سے دیگر کھلاڑیوں کو بھی تحریک ملے گی کہ فینسی فکسنگ سے نہ صرف وہ لاکھوں روپے کما سکتے ہیں بلکہ پکڑے جانے پر اُن کے حق میں ہمدردی کی آواز بھی بلند ہوگی اور چند برس بعد وہ شان و شوکت کے ساتھ پاکستان کی ٹیم کا حصہ بن جائیں گے۔جب تک پاکستان کرکٹ بورڈ کرپشن میں ملوث کھلاڑیوں کیساتھ رعایت کرتا رہے گا اُس وقت تک کرپشن کا ناسور پاکستان کرکٹ کو جکڑے رکھے گا۔
پاکستان سپر لیگ سے وابستہ جو لوگ ایسے کھلاڑیوں کو پکڑ کر سینہ تان کر چل رہے ہیں انہیں صرف ایک مرتبہ آئینہ دیکھ لینا چاہیے کیونکہ کرپشن کی بدنامی کا یہ’’ طمانچہ‘‘ اُن کے رخصار پر پانچوں اُنگلیوں کے نشان چھوڑ چکا ہے!!
یہ مضمون ابتدائی طور پر کرک نامہ ڈاٹ کام پر شائع ہوا، اور با اجازت یہاں دوبارہ شائع کیا گیا ہے.
تبصرے (3) بند ہیں