آزاد کشمیر خودکش حملہ: ’پولیس کے دعوے حقیقت سے دور‘
آزاد جموں و کشمیر میں 2009 میں امام بارگاہ میں ہونے والے خودکش حملے کے مشتبہ ملزمان کے اہلخانہ نے پولیس کے دعوے کو مسترد کرتے ہوئے اسے حقیقت سے کوسوں دور قرار دیا۔
خودکش دھماکے کے مشتبہ ملزم عمر فاروق کے والد سید حیات علی شاہ اور بڑے بھائی سید عبدالقدیر شاہ جبکہ دوسرے ملزم خاقان کے والد عبدالمجید نے مشترکہ پریس کانفرنس کی۔
پریس کانفرنس کے دوران عبدالقدیر شاہ نے بتایا کہ ’عمر فاروق کو ملٹری ایجنسی نے 21 مئی 2014 کو ڈسکہ سے گرفتار کیا، اسے تحقیقات کے بعد میرپور آزاد کشمیر کی عدالت میں پیش کیا گیا جہاں سے وہ 12 مئی 2015 کو رہا ہوا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’4 اپریل 2016 کو عمر فاروق کو راولپنڈی سے واپس آتے ہوئے کوہالہ کے مقام پر ملٹری ایجنسی نے بس سے اتارا اور تحقیقات کے بعد 3 دسمبر کو پولیس کے حوالے کردیا۔‘
انہوں نے کہا کہ ’پولیس نے عمر فاروق کو دو ماہ سے زائد عرصے تک حراست میں رکھا، ہم نے جب بھی پولیس سے بات کی تو انہوں نے کہا کہ آپ کے بھائی کو ایجنسی نے کلیئر کر دیا ہے لہٰذا ہم اسے جلد چھوڑ دیں گے، لیکن ہم اس وقت حیران رہ گئے جب پولیس نے عمر کی گرفتاری ظاہر کی اور اسے دہشت گرد بنا کر پیش کیا۔‘
عبدالقدیر شاہ نے کہا کہ ’یہ سب کچھ پولیس کے چند افسران نے اپنی ترقی کے لیے کیا، میرا بھائی دہشت گرد نہیں اور پولیس کے دعوے حقیقت سے کوسوں دور ہے۔‘
پولیس کے پاس دوسرے گرفتار ملزم خاقان کے والد نے کہا کہ ’ہم کھیتی باڑی کرتے ہیں، میرے بیٹے کو گھر سے گرفتار کیا گیا، جبکہ وہ پولیس کے پاس 8 ماہ سے ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’ہم نے پولیس سے متعدد بار رابطہ کیا، پولیس حکام ہمیں چند روز بعد آنے کا کہتے اور ہر دفعہ نئی تاریخ دے دیتے۔‘
یاد رہے کہ چند روز قبل مظفر آباد کے ایڈیشنل سپرنٹنڈنٹ پولیس آصف درانی نے تین نقاب پوش ملزمان کو میڈیا کے سامنے پیش کرتے ہوئے دعویٰ کیا تھا کہ تینوں 2009 میں 9 محرم الحرام کی شام کو امام بارگاہ پیر علم شاہ بخاری میں ہونے والے خود کش حملے میں ملوث تھے۔
آصف درانی نے دیگر پولیس افسران کے ہمراہ پریس کانفرنس میں بتایا کہ ’9 محرم کے دھماکے کے مرکزی ملزمان سریاں مٖظفرآباد کے رہائشی ملک محمد اشفاق، ہٹیاں بالا کے محمد خاقان، اور نیلم ویلی سے تعلق رکھنے واکے عمر فاروق شاہ کو مختلف مقامات سے گرفتار کرلیا گیا۔‘