• KHI: Maghrib 5:49pm Isha 7:11pm
  • LHR: Maghrib 5:05pm Isha 6:32pm
  • ISB: Maghrib 5:05pm Isha 6:34pm
  • KHI: Maghrib 5:49pm Isha 7:11pm
  • LHR: Maghrib 5:05pm Isha 6:32pm
  • ISB: Maghrib 5:05pm Isha 6:34pm

شام میں مشترکہ کارروائی کیلئے ترکی اور امریکا کا اتفاق

شائع February 8, 2017

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے عہدہ سنبھالنے کے بعد ترک صدر رجب طیب اردگان نے پہلی بار ان سے ٹیلی فون پر گفتگو کی جس میں دونوں رہنماؤں نے دہشت گردی کے خلاف جنگ مل کر لڑنے کا اتفاق کیا۔

فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق ترک حکومت کی جانب سے جاری بیان کے مطابق ڈونلڈ ٹرمپ اور طیب اردگان کے درمیان ہونے والی گفتگو میں اتفاق ہوا کہ امریکا اور ترکی شام میں دہشت گردوں کے خلاف جنگ میں تعاون کریں گے۔

دونوں رہنماؤں کے درمیان اس بات پر بھی اتفاق ہوا کہ امریکی خفیہ ایجنسی (سی آئی اے) کے سربراہ مائیک پومپیو رواں ہفتے ترکی کا دورہ کریں گے۔

یہ بھی پڑھیں: ترک طیاروں کی شام میں بمباری، 20 شہری ہلاک

عہدہ سنبھالنے کے بعد سی آئی اے کے سربراہ کا یہ پہلا غیر ملکی دورہ ہوگا۔

ٹیلی فونک گفتگو میں امریکی و ترک صدور نے شام کے قصبے الباب اور الرقہ سے داعش کا کنٹرول چھڑانے کے لیے ترکی کی کوششوں میں امریکی تعاون پر تبادلہ خیال کیا۔

ذرائع نے بتایا کہ 'دونوں رہنماؤں نے اس بات پر اتفاق کیا کہ امریکا اور ترکی الباب اور الرقہ میں مشترکہ کارروائیاں کرے گا'۔

واضح رہے کہ ترکی بھی داعش کے خلاف امریکی سربراہی میں بننے والے عالمی اتحاد کا رکن ہے تاہم اس نے گزشتہ برس اگست میں شام میں یکطرفہ کارروائی شروع کردی تھی، شام میں داخل ہونے والی ترک فورسز نے اپنی سرحد سے داعش اور کرد جنگجوؤں کو دور بھگانے کے لیے شامی باغیوں کی حمایت کی تھی۔

مزید پڑھیں: ’اسد حکومت ختم کرنے کے لیے شام میں داخل ہوئے‘

تاہم ترک فورسز کو الباب میں شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا اور اس کی فوج کو بھاری نقصان اٹھانا پڑا جس کے بعد اردگان نے کہا تھا کہ ترکی کو شام میں تنہا چھوڑ دیا گیا ہے۔

الرقہ میں امریکا ترک مشترکہ کارروائی کی بات پہلے بھی کی جاچکی ہے تاہم اس میں کبھی پیش رفت نہیں ہوسکی اور یہی وجہ تھی کہ ترکی اوباما انتظامیہ سے مایوس ہوچکا تھا البتہ اسے ڈونلڈ ٹرمپ سے کافی توقعات وابستہ ہیں۔

ترکی امریکا کی جانب سے شامی کرد ملیشیا کی حمایت پر ناراض رہتا ہے لیکن امریکا داعش کے خلاف جنگ میں کرد ملیشیا کو انتہائی اہم تصور کرتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: روس اور ترکی، شام میں مکمل جنگ بندی پر متفق

لیکن ترکی کرد ڈیموکریٹک پارٹی (پی وائی ڈی) اور اس کے عسکری ونگ کرد پیپلز پروٹیکشن یونٹس (وائی پی جی) کو دہشت گرد گروپس اور کالعدم کردستان ورکرز پارٹی (پی کے کے) کی شاخیں قرار دیتا ہے جس نے 1984 میں ترک حکومت کے خلاف خونریز بغاوت کی تھی۔

اردگان نے دوران گفتگو یہ بھی کہا کہ ترکی امید کرتا ہے کہ واشنگٹن امریکا میں مقیم مبلغ فتح اللہ گولن کے خلاف جنگ میں ترکی کا ساتھ دے گا۔

ترکی گولن کو 15 جولائی 2016 کو ہونے والی بغاوت کی کوشش کا ماسٹر مائنڈ کہتا ہے اور ان کی تنظیم کو فتح اللہ ٹیرر آرگنائزیشن (فیٹو) قرار دیتا ہے۔

ذرائع نے یہ بھی بتایا کہ سی آئی اے کے چیف پومپیو جمعرات 9 فروری کو ترکی کے دورے پر پہنچے گے جہاں وہ ترک حکام سے پی وائی ڈی اور فیٹو سے متعلق امور پر بات چیت کریں گے۔

وائٹ ہاؤس کی جانب سے جاری بیان کے مطابق دوران گفتگو ٹرمپ نے ہر قسم کی دہشت گردی کے خاتمے کے لیے مشترکہ کوششوں کا عزم ظاہر کیا اور کہا کہ امریکا ترکی کے ساتھ تعاون جاری رکھے گا کیوں کہ وہ ایک اسٹریٹجک پارٹنر اور نیٹو اتحادی ہے۔

کارٹون

کارٹون : 23 دسمبر 2024
کارٹون : 22 دسمبر 2024