• KHI: Zuhr 12:30pm Asr 5:06pm
  • LHR: Zuhr 12:00pm Asr 4:44pm
  • ISB: Zuhr 12:05pm Asr 4:51pm
  • KHI: Zuhr 12:30pm Asr 5:06pm
  • LHR: Zuhr 12:00pm Asr 4:44pm
  • ISB: Zuhr 12:05pm Asr 4:51pm

'مردم شماری ٹیم کے تحفظ کیلئے 16000 پولیس اہلکار تعینات'

شائع February 8, 2017

کراچی میں آئندہ ماہ ہونے والی مردم شماری کے دوران سیکیورٹی اور مدد فراہم کرنے کیلئے فوج اور سول انتظامیہ کے علاوہ 16000 پولیس اہلکاروں کو بھی تعینات کیا جائے گا۔

خیال رہے کہ ملک میں چھٹی مردم شماری کا آغاز 15 مارچ سے ہونے جارہا ہے۔

مردم شماری ٹیم کے تحفظ اور مدد کیلئے پولیس اہلکاروں کی تعیناتی کا فیصلہ، سیکیورٹی کے جائزے کیلئے ہونے والے ایک اجلاس میں ہوا، جس کی سربراہی سندھ کے آئی جی اے ڈی خواجہ کررہے تھے۔

پولیس ترجمان کے مطابق آئی جی نے سینئر پولیس افسران کو مردم شماری کے دوران سیکیورٹی انتظامات ترتیب دینے کی ہدایت کی ہے۔

مردم شماری کی سیکیورٹی کے منصوبے کی تشکیل اور اس حوالے سے دیگر سینئر پولیس افسران سے رابطے کے ذمہ دار سینئر پولیس افسر نے بتایا کہ سیکیورٹی کی حکمت عملی کو اب تک حتمی شکل نہیں دی گئی لیکن یہ اندازہ لگایا گیا ہے کہ سول انتظامیہ اور پاک فوج کے سپاہیوں کے ہمراہ مستقل سیکیورٹی کیلئے کم سے کم 15000 اہلکار تعینات کیا جاسکتا ہے۔

ڈی آئی جی (ہیڈکوارٹرز) منیر احمد شیخ نے ڈان کو بتایا کہ 'ہمیں بتایا گیا ہے کہ مردم شماری کے پہلے مرحلے کیلئے 8000 ٹمیں تعینات کی جائیں گی'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'ہر ٹیم کے ساتھ ہمارے دو مسلح پولیس اہلکار تعینات ہوں گے، اور یہ 16000 پولیس اہلکار مردم شماری کے اختتام تک اس ٹیم کا حصہ رہیں گے'۔

انھوں نے بتایا کہ 'ایک ماہ تک یہ پولیس اہلکار مردم شماری کی ٹیم کا حصہ ہوں گے اور ان سے معمول کی پولیسنگ کا کام نہیں لیا جائے گا'۔

ان کا کہنا تھا کہ پولیس اہلکاروں کو معمول کے ہتھیار فراہم کیے جائیں گے جو عام حالات میں سیکیورٹی کیلئے سندھ پولیس کے زیر استعمال رہتے ہیں۔

پاکستان کے ادارہ شماریات کے اعلامیے کے مطابق ملک میں آئندہ ماہ چاروں صوبوں کے 11 ڈویژنز اور دارالحکومت اسلام آباد میں مردم شماری اور خانہ شماری ہونے جارہی ہے۔

ادارے کے مطابق مردم شماری پہلے صوبہ بلوچستان میں کی جائے گی اور اسے سندھ، پنجاب اور خیبرپختونخوا میں دو مرحلوں میں مکمل کیا جائے گا جبکہ دوسرے مرحلے میں فاٹا، آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان میں مردم شماری کی جائے گی۔

پہلے مرحلے میں خیبرپختونخوا کے مرادن اور پشاور ڈویژنز، پنجاب کے لاہور، فیصل آباد، ڈیرہ غازی خان اور سرگودھا ڈویژنز، سندھ کے کراچی، حیدرآباد اور میرپورخاص ڈویژنز، اور بلوچستان کے کوئٹہ، ذوب، سبی، نصیر آباد، قلات اور مکران ڈویژنز میں مردم شماری ہوگی، مردم شماری کے پہلے مرحلے میں اسلام آباد کو بھی شامل کیا جائے گا۔

مردم شماری کے دوسرے مرحلے میں خیبرپختونخوا کے ہزارہ، مالاکنڈ، کوہاٹ، بنوں اور ڈی آئی خان ڈویژنز، پنجاب کے گوجرانوالہ، راولپنڈی، بہاولپور،ملتان اور ساہیوال ڈویژنز جبکہ سندھ کے لارکانہ، سکھر اور بےنظر آباد ڈویژنز شامل ہوں گے۔ اس کے علاوہ دوسرے مرحلے میں وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقوں (فاٹا)، آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان میں بھی مردم شماری ہوگی۔

ڈی آئی جی ہیڈکوارٹرز کا کہنا تھا کہ مردم شماری کے آغاز میں 5 ہفتے باقی ہیں اور سندھ پولیس، مقامی انتظامیہ اور فوج کے تعاون سے سیکیورٹی پلان کو جلد حتمی شکل دے دی جائے گی، جنھیں سول انتظامیہ اور فوج کے ساتھ تعاون کی ہدایت کی گئی ہے۔

سینئر پولیس افسر نے بتایا کہ 'ہماری جانب سے طے شدہ سیکیورٹی منصوبے کے تحت ریپڈ رسپانس فورسز، سندھ ریزرو پولیس اور فوری رسپانس فورس سے 16000 اہلکاروں کو تعینات کیا جائے گا'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'اس دوران فوری رسپانس فورسز کا یونٹ دیگر دونوں پولیس یونٹوں کی رہنمائی کرے گا، مذکورہ یونٹس کے اہلکاروں کی تعیناتی کا مطلب یہ نہیں ہو گا کہ علاقے کی پولیس مردم شماری کے دوران اپنے فرائض انجام نہیں دے گی'۔

انھوں نے کہا کہ طے شدہ سیکیورٹی منصوبے کے مطابق علاقے میں ضروری انتظامات کیلئے مقامی پولیس اسٹیشنز (تھانے) مردم شماری ٹیم کو مدد فراہم کریں گے۔

مردم شماری کا پہلا مرحلہ 15 مارچ سے شروع ہوگا اور 15 اپریل تک جاری رہے گاجبکہ دوسرا مرحلہ 25 اپریل سے 25 مئی تک جاری رہے گا۔

خیال رہے کہ فوج کی جانب سے ملک کی چھٹی مردم شماری کیلئے 200000 فوجی اہلکاروں کی تعیناتی کا پہلے سے اعلان کیا جاچکا ہے۔

پاک فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے پہلے مرحلے کیلئے 45000 فوجیوں کی تعیناتی کا وعدہ کیا ہے، اس کے علاوہ مردم شماری کے پہلے مرحلے کیلئے سول انتظامیہ سے بھی 45000 ملازمین کو تعینات کیا جائے گا۔

یاد رہے کہ ملک میں پہلی مردم شماری 1951، دوسری مردم شماری 1961، تیسری مردم شماری 1971 کے بجائے 1972 اور چوتھی مردم شماری 1981 میں ہوئی تھی جبکہ پانچویں مردم شماری جو 1991 میں ہونا تھی فوج کی مدد سے 1998 میں ہوئی تھی۔

آئین کے مطابق حکومت اس بات کی پابند ہے کہ وہ ہر 10 سال میں مردم شماری کرائے۔

یہ پارلیمنٹ، انتخابی عمل، ٹیکس وصولی اور دیگر شہری مسائل میں نمائندگی کا حساب لگانے، وسائل کی منصفانہ تقسیم کے لیے بنیادی ضروریات میں سے ایک تصور کی جاتی ہے۔

یہ رپورٹ 8 فروری 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

کارٹون

کارٹون : 27 اپریل 2025
کارٹون : 26 اپریل 2025