• KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm
  • KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm

حکمت یار اور کابل کے درمیان "امن معاہدہ" کتنا پائیدار؟

شائع February 11, 2017
لکھاری پشاور میں مقیم فری لانسر صحافی ہیں۔
لکھاری پشاور میں مقیم فری لانسر صحافی ہیں۔

اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی جانب سے سابق جنگجو سردار گلبدین حکمت یار پر عائد پابندیاں ہٹائے جانے کے بعد پریشانیوں کے شکار افغان صدر اشرف غنی نے بالآخر سکھ کا سانس لیا ہے۔

ان کے اثاثے بھی بحال کر دیے گئے ہیں اور انہیں اپنی خفیہ پناہ گاہوں سے نکل آنے کی اجازت بھی دی جا چکی ہے۔ اب حزبِ اسلامی افغانستان کے یہ سربراہ سیاسی سرگرمیوں کا آغاز کرنے کی تیاریوں میں ہیں۔

ایک جانب سابق وزیر اعظم کے نام کا بلیک لسٹ سے اخراج ستمبر 2016 میں کابل اور حزب اسلامی افغانستان کے درمیان ہونے والے امن معاہدے پر عمل درآمد کی جانب ایک اہم قدم ہے اور دوسری جانب اشرف غنی کے مؤقف، کہ 16 سالہ تنازع کا بات چیت کے ذریعے حل اب بھی ممکن ہے، کو بھی درست ثابت کرتا ہے۔ ثقافتی و سیاسی حلقوں میں غیر معمولی اثر رکھنے والے حکمت یار پہلے عسکری کمانڈر ہیں جن کا کابل کے ساتھ اس قسم کا اتفاق ہوا ہے۔

افغانستان میں افغان طالبان کے بعد سب سے بڑی عسکریت پسند تنظیم حزبِ اسلامی افغانستان اپنے مسلح ونگ کو ختم کرتے ہوئے ملکی دستور کو قبول کر چکی ہے، جس کے بدلے میں حکومت نے حزب اسلامی افغانستان کے سینکڑوں قیدیوں کو آزاد کرنے، تنظیم کو انتخابی اصلاحات کے مرحلے کا حصہ بنانے، پاکستان سے آنے والے مہاجرین کو واپس لوٹانے اور اسلامی اصولوں کو اپنانے کا وعدہ کیا ہے۔

اس اقدام سے مرکزی سیاسی شخصیات بشمول اشرف غنی اور چیف ایگزیکٹو ڈاکٹر عبداللہ کے لیے کون سے نتائج برآمد ہوں گے، اس بارے میں ابھی کچھ کہنا مشکل ہے۔ وہ شخص جو امریکی افواج کے خلاف گزشتہ ڈیڑھ دہائی سے برسرِپیکار ہے، اگر اس کے ساتھ کیے گئے معاہدے پر مکمل طور پر عمل درآمد نہیں ہوا تو وہ شخص حکومت کے سامنے ایک بھیانک چیلنج کھڑا کر سکتا ہے۔

موجودہ مخلوط حکومت، جو کہ انتخابی اصلاحات اور عبداللہ کے عہدے کو قانونی حیثیت دینے جیسے کئی مسائل پر اب بھی متفق نظر نہیں آتی وہاں اس قسم کی ضمانتیں دینا ایک کٹھن کام ہوگا۔ جہاں حکومت کی قانونی حیثیت پر ایک سوالیہ نشان کھڑا ہے، وہاں اتحادی حکومت حزب اسلامی افغانستان کو وعدے کے مطابق کردار دینے پر جلد کوئی متفقہ رائے قائم کرتی نظر نہیں آ رہی ہے۔

اشرف غنی اور عبداللہ — جو اہم سرکاری عہدوں کی تقسیم اور آئینی ترامیم پر لویا جرگہ کروانے پر لڑ جھگڑ رہے ہیں — دونوں اچھی طرح جانتے ہیں کہ حکمت یار ان کے لیے ایک بڑا خطرہ ثابت ہو سکتے ہیں۔ پورے ملک میں اپنی دوبارہ آمد کے اثر کو محسوس کروانے کی خاطر ظاہر ہے کہ حزب اسلامی افغانستان کے سربراہ اپنی جماعت سے کیے جانے والے وعدوں پر تیزی سے عمل در آمد کرنے پر زور ڈالیں گے۔

حکمت یار اور ان کے حامیوں کی جانب سے کی جانے والی ماضی کی کارروائیوں سے استثنیٰ کا وعدہ ایک ایسا نکتہ ہے جس پر ابھی بھی کوئی پیش رفت نہیں ہوئی ہے۔ سول سوسائٹی، انسانی حقوق کی تنظیمیں اور شمالی اتحاد کے حامی، خاص طور پر پنجشیری گروہ، حزب اسلامی افغانستان کو سیاسی کردار دینے کے خلاف مشکلات کھڑی کرنے کی ہر ممکن کوشش کریں گے۔ اشرف غنی اپنے اس نئے اتحادی کے احتساب کے لیے اٹھنے والے مطالبات کا کس طرح جواب دیتے ہیں، یہ دیکھنا ابھی باقی ہے۔

برسوں تک روپوش رہنے کے بعد حکمت یار کی سیاست میں دوبارہ آمد سے کابل میں سزا سے استثنیٰ کے اس کلچر کو فروغ ملے گا جو کچھ جنگجو سرداروں کو دے کر کابل اور اس کے بین الاقوامی اتحادیوں نے پیدا کیا ہے۔ اس طرح حزبِ اسلامی کے ان جنگجوؤں کا شکار بننے والے افراد میں بھی اشتعال پیدا ہوگا جنہیں 1980 کی دہائی کے اواخر میں سوویت دستبرداری کے بعد کھلا چھوڑ دیا گیا تھا۔

معاہدے کے مطابق حزب اسلامی افغانستان کو حکومت میں کردار ادا کرنے کی گارنٹی ہوگی، اور اس کے ممبران — جنگجوؤں اور کمانڈروں— کو سیکیورٹی فورسز میں ضم کر دیا جائے گا۔ سیاسی نظام میں پہلے سے زیادہ موجودگی ہونے سے یہ تنظیم ممکن ہے کہ جماعتی انتخابی نظام پر زور ڈالے۔

حکومت کے اندر بیٹھے کئی طاقتور افراد کے لیے یہ ایک انتہائی ناگوار بات سے کم نہیں۔ حزب اور جماعت اسلامی کے درمیان 1979 کی دہائی سے جاری مخاصمت بھی معاہدے پر مکمل عمل درآمد کی راہ میں حائل ایک دوسری بڑی رکاوٹ ہے۔ سابق خفیہ جاسوسوں کے نگران امر اللہ صالح اور رحمت اللہ نبیل جیسے لوگوں کی جانب سے جاری ہونے والے بیانات حکمت یار کی پارٹی کے ساتھ امن قائم کرنے پر اختلافات کو ظاہر کرتے ہیں۔

کابل کو امید ہے کہ اس امن معاہدے کو طالبان کے ساتھ مذاکرات کے لیے ایک ماڈل کے طور پر استعمال کیا جائے گا، مگر حکومت کے ایسے اندازوں میں غیر تجربہ کاری عروج پر دکھائی دیتی ہے۔ دیہی زمینوں کے بڑے حصوں پر کنٹرول رکھنے والے طالبان پہلے ہی پاکستان، چین اور سعودی عرب جیسے مختلف ممالک کے دباؤ کا مقابلہ کرتے ہوئے حکومت کی جانب سے پیش کردہ امن معاہدوں کو ٹھکرا چکے ہیں۔

روس نے حزب اسلامی افغانستان کے قائد کے خلاف پابندیاں ختم کرنے کی مخالفت کی ہے جن کے پیروکاروں نے خانہ جنگی کے دوران ملک کے دارالحکومت پر راکٹ برسائے تھے، جن کی وجہ سے حکمت یار کو "کابل کا قصائی" جیسا خطاب ملا۔ مگر سلامتی کونسل کے دیگر ممبران نے کابل کی جانب سے امن معاہدے پر عمل درآمد میں مدد کی درخواست پر مثبت انداز میں جواب دیا ہے۔

حکومت کے نکتہ نظر سے عالمی طاقتوں سے حوصلہ افزا جذبات افغان حکومت کی جانب سے ہونے والے مذاکرات کی مضبوط بین الاقوامی حمایت کو ظاہر کرتے ہیں۔ تاہم جنگ لڑنے پر بضد طالبان کو دیکھیں تو مفاہت کی راہ کئی دشواریوں سے بھری نظر آتی ہے۔

کیا امریکا، جس نے اس جنگجو کمانڈر کے سر پر ایک بھاری رقم رکھی ہوئی ہے، بھی ان پر سے پابندیاں ختم کر دے گا؟ ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے سابق ہم منصب سے افغانستان کو خاطر خواہ بہتر حالات میں حاصل نہیں کیا ہے — امریکی فوجیوں کا مسئلہ اب بھی کافی پیچیدگیوں کا شکار ہے۔

توقع ہے کہ امریکا افغان جنگ کو اپنے نام کرنے کی چاہت کو ترک کر دے گا جبکہ ٹرمپ کو چاہیے کہ وہ کابل کی مدد کریں تاکہ وہ اپنے مسائل کا مقامی حل تلاش کر سکے۔

انگلش میں پڑھیں۔

یہ مضمون7 فروری 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

سید مدثر علی شاہ

لکھاری پشاور میں مقیم فری لانسر صحافی ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

کارٹون

کارٹون : 23 نومبر 2024
کارٹون : 22 نومبر 2024