اگر امریکا میں کچھ ہوا تو اس کا ذمہ دار جج ہوگا: ٹرمپ
نئے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ 7 مسلمان ممالک کے شہریوں پر عائد سفری پابندیوں کو معطل کرنے والی وفاقی عدالت پر برس پڑے اور امریکیوں کو خطرے میں ڈالنے کا ذمہ دار عدلیہ کو قرار دے دیا۔
ٹوئٹر پر گاہے بہ گاہے اپنے مخالفین کو تنقید کا نشانہ بنانے والے ڈونلڈ ٹرمپ نے اس بار بھی سماجی رابطے کی اس ویب سائٹ کا استعمال کیا اور اپنے ٹوئٹر پیغامات میں وفاقی عدالت پر کڑی تنقید کی۔
ایک روز کے وقفے کے بعد کی گئی ٹوئیٹ میں امریکی صدر نے وفاقی عدالت کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے لکھا 'جج نے ہمارے ملک کو ممکنہ دہشت گردوں اور دیگر افراد کے لیے کھول دیا ہے جن کے دل میں ہمارے لیے اچھے ارادے نہیں، اس اقدام سے برے لوگ بہت خوش ہیں'۔
اپنی دوسری ٹوئیٹ میں ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا تھا، 'میں یقین نہیں کرسکتا کہ کوئی جج ہمارے ملک کو ایسے خطرے میں ڈالے گا، اگر امریکا میں کچھ ہوتا ہے تو اس کا ذمہ دار جج اور عدالتی نظام کو ٹھہرایا جائے، لوگ داخل ہوتے چلے جارہے ہیں، افسوس؟'
ساتھ ہی انہوں نے ہوم لینڈ سیکیورٹی کو جاری کیے گئے احکامات کا تذکرہ بھی کیا اور کہا کہ عدالت ان کے کام کو بہت مشکل بنارہی ہے۔
واضح رہے کہ گذشتہ ماہ 27 جنوری کو ٹرمپ کے متنازع احکامات کے اجراء کے بعد ایک نئی بحث کا آغاز ہوگیا تھا، جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے نئے ایگزیکٹو آرڈر پر دستخط کرکے امریکا میں تارکین وطن کے داخلے کے پروگرام کو معطل کردیا تھا اور 7 مسلمان ممالک کے شہریوں کے امریکا میں داخلے پر پابندی عائد کی تھی۔
یہ بھی پڑھیں: امریکا: عدالت میں ٹرمپ انتظامیہ کی درخواست مسترد
ایگزیکٹو آرڈر کے تحت امریکا میں تارکین وطن کے داخلے کے پروگرام کو 120 دن (یعنی 4 ماہ) کے لیے معطل کردیا گیا تھا جبکہ 7 مسلمان ممالک ایران، عراق، لیبیا، صومالیہ، سوڈان، شام اور یمن کے شہریوں کو 90 دن (یعنی 3 ماہ) تک امریکا کے ویزے جاری نہ کرنے کے احکامات دیئے گئے تھے۔
اس آرڈر کے تحت تاحکم ثانی شامی مہاجرین کے امریکا میں داخلے پر بھی پابندی عائد کردی گئی تھی۔
اس متنازع حکم نامے کے خلاف دنیا بھر سے مذمت اور احتجاج کا سلسلہ سامنے آیا، ڈونلڈ ٹرمپ کے فیصلے کے خلاف خود امریکی ریاستیں اٹھ کھڑی ہوئیں، واشنگٹن اور منیسوٹا ریاست کی درخواست پر گزشتہ ہفتے امریکی عدالت نے صدارتی ایگزیکٹو آرڈرز کو عارضی طور پر معطل کرنے کا حکم دیا، جس کے بعد ہوم لینڈ سیکیورٹی نے عدالتی احکامات پر عمل کیا۔
صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے عدالت کے فیصلے کو مضحکہ خیز قرار دیتے ہوئے اسے مسترد کردیا تھا جب کہ ٹرمپ انتظامیہ نے فیصلے کے خلاف درخواست دائر کرنے کا اعلان کیا تھا، جس کے بعد ہفتہ 4 فروری کو محکمہ انصاف نے نظرثانی درخواست دائر کی، جسے عدالت نے مسترد کردیا۔
4 فروری کو سان فرانسسکو کی 9 سرکٹ اپیل کورٹ میں دائر کی گئی نظرثانی کی درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا کہ قومی سلامتی کی حفاظت کے لیے غیر ملکیوں کے اخراج یا داخلے سے متعلق فیصلہ کرنا صدر کا استحقاق ہے۔
ٹرمپ انتظامیہ نے عدالت سے درخواست کی تھی کہ’ ڈونلڈ ٹرمپ کے احکامات کو روکنے والے عدالتی احکامات کو روکا جائے‘۔
تاہم امریکی عدالت نے ٹرمپ انتظامیہ کی اس درخواست کو بھی مسترد کردیا تھا۔