سابق افغان جنگجو گلبدین حکمت یار کا نام بلیک لسٹ سے خارج
اقوام متحدہ نے سابق افغان جنگجو اور حزب اسلامی کے سربراہ گلبدین حکمت یار کا نام بلیک لسٹ سے خارج کردیا۔
خبررساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) کے مطابق اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل کی جانب سے جاری کیے گئے ایک بیان میں اس بات کا اعلان کیا گیا کہ یو این کمیٹی نے گلبدین حکمت یار پر سے پابندی ہٹا دی ہے۔
بیان کے مطابق حزب اسلامی کے سربراہ حکمت یار کے اثاثے اب منجمد تصور نہیں کیے جائیں گے اور نہ ہی ان پر کسی قسم کی سفری پابندیاں عائد کی جائیں گی۔
یاد رہے کہ ستمبر 2016 میں افغانستان کے دارالحکومت کابل میں صدر اشرف غنی اور ملک کے سابق جنگجو سربراہ گلبدین حکمت یار نے افغان امن معاہدے پر دستخط کیے تھے۔
بعدازاں افغانستان کی نیشنل سیکیورٹی کونسل (این ایس سی) کی جانب سے یہ بیان سامنے آیا تھا کہ افغان حکومت جلد اقوام متحدہ کو خط لکھے گی جس میں حزب اسلامی کے سربراہ گلبدین حکمت یار پر عائد پابندیاں ہٹانے کا مطالبہ کیا جائے گا۔
مزید پڑھیں: افغان حکومت، گلبدین حکمت یار کے درمیان امن معاہدہ طے پاگیا
جس کے بعد اقوام متحدہ کے ایک وفد نے کابل میں واقع صدارتی محل میں صدر اشرف غنی سے ملاقات کی تھی اور اس ملاقات میں حکمت یار پر موجود پابندیوں کو ہٹانے کے معاملات بھی زیر غور آئے تھے۔
اس ملاقات میں اقوام متحدہ کے وفد نے افغان حکومت کو حزب اسلامی پر موجود پابندیوں کو ہٹانے میں تعاون کی یقین دہانی کرائی۔
گلبدین حکمت یار کو افغان وار لاڈ کے طور پر جانا جاتا ہے، جو ملک کے ایک اہم عسکری گروپ حزب اسلامی کے سربراہ ہیں۔
افغانستان کی دوسری بڑی عسکری جماعت کے ساتھ طے پانے والے مذکورہ معاہدے کو ملک میں امن عمل کے لیے کام کرنے والے صدر اشرف غنی کی بڑی کامیابی قرار دیا گیا۔
دوسری جانب سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا تھا کہ اس کے ساتھ ہی گلبدین حکمت یار کے ملک کی سیاست میں آنے کے امکانات ایک مرتبہ پھر روشن ہوجائیں گے۔
گلبدین افغان خانہ جنگی کا اہم کردار
گلبدین حکمت یار کو کئی دہائیوں تک افغان جنگ کا تجربہ ہے، وہ حزب اسلامی کے سربراہ ہیں جسے دائیں بازو کا مسلح گروہ قرار دیئے جانے کے ساتھ ساتھ 90 کی دہائی کے اوائل میں افغانستان میں خانہ جنگی کے ذمہ داروں میں سے ایک کردار بھی مانا جاتا رہا ہے، گلبدین حکمت یار کچھ عرصے کے لیے افغانستان کے وزیراعظم کے عہدے پر بھی فائز رہ چکے ہیں۔
افغانستان کے سابق وزیراعظم انجینئر گلبدین حکمت یار کی زیرقیادت تنظیم حزب اسلامی نے 1977 سے 1992 تک روس کے خلاف جنگ میں متحرک ترین کردار ادا کیا تھا جبکہ حزب اسلامی پر 1992 سے 1996 کی افغان خانہ جنگی کے دوران کابل میں بڑے پیمانے پر مخالفین کو ہلاک کرنے کا بھی الزام عائد کیا جاتا رہا ہے۔
2001 میں افغانستان میں امریکا کی فوجی دخل اندازی کے بعد گلبدین حکمت یار اور ان کی جماعت کو حکومت میں شامل کرنے کی کوشش کی گئی لیکن انہوں نے افغانستان میں امریکا کے خلاف جنگ لڑنے کا اعلان کیا۔
یہ بھی پڑھیں: 'حکمت یار سے پابندی ہٹانے کا مطالبہ کیا جائے گا'
تاہم واضح رہے کہ حزب اسلامی حالیہ چند سالوں سے غیر مؤثر ہے، انھوں نے آخری بڑا حملہ 2013 میں کیا تھا جس میں 6 امریکیوں سمیت 15 افراد ہلاک ہوگئے تھے۔
دوسری جانب طالبان، جن سے 2011 میں حکومت چھین لی گئی تھی، نے مغربی ممالک کی مدد سے بننے والی حکومت کے ساتھ مذاکرات کرنے سے انکار کردیا ہے اور ملک بھر میں کارروائیوں میں مصروف ہیں۔
علاوہ ازیں شدت پسند تنظیم داعش بھی افغانستان میں قدم جمانے کی کوششوں میں مصروف ہے۔