سفری پابندیوں سے متعلق ٹرمپ کا ایگزیکٹو آرڈر معطل
واشنگٹن: امریکا کی وفاقی عدالت نے 2 ریاستوں کی درخواست پر صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ایگزیکٹو آرڈرز کو عارضی طور پر معطل کرتے ہوئے 7مسلم ممالک کے شہریوں کے امریکا میں داخلے پر پابندی ہٹانے کا حکم دے دیا۔
واشنگٹن کے شہر سیاٹل کی وفاقی عدالت کے جج جیمز رابرٹ نے ریاست واشنٹگن اور منی سوٹا کی جانب سے دائر کی گئی درخواست پر صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے وہ احکامات معطل کردئیے جن میں انہوں نے 7 مسلم ممالک کے شہریوں پر 4 ماہ کے لیے امریکا آمد پر پابندی عائد کردی تھی۔
وفاقی عدالت کے ان احکامات کا عمل امریکا بھر میں ہوگا۔
یہ بھی پڑھیں: 7 مسلمان ممالک کے شہریوں کے امریکا میں داخلے پر پابندی
غیر ملکی خبر رساں ادارے’ اے پی ‘کے مطابق امریکی جج نے حکومتی وکیل کے اس فیصلے کے خلاف فیصلہ دیا جس میں حکومتی وکیل نے مؤقف اختیار کیا کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے احکامات کو چیلنج نہیں کیا جا سکتا۔
ضلعی عدالت کے جج جیمز رابرٹ نے ڈونلڈ ٹرمپ کے احکامات کو معطل کرتے ہوئے عارضی حکم امتناعی جاری کیا اور اپنے ریمارکس میں کہا کہ ایگزیکٹو احکامات سے ریاست پر بوجھ پڑا اور مظاہروں کی وجہ سے ناقابل تلافی نقصان اٹھانا پڑا۔
واضح رہے کہ اس سے قبل گزشتہ ہفتے 29 جنوری کو بھی امریکا کی ریاست نیو یارک اور ڈلاس کی مقامی عدالتوں نے ڈونلڈ ٹرمپ کے ان احکامات کو عارضی طور پر معطل کیا تھا، مگر ان عدالتوں کے احکامات امریکا بھر میں نافذ العمل نہیں تھے۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے گزشتہ ماہ 28 جنوری کو ایک ایگزیکٹو آرڈر جاری کرتے ہوئے امریکا میں تارکین وطن کے داخلے کے پروگرام کو 120 دن (یعنی 4 ماہ) کے لیے معطل کردیا تھا، جب کہ ایران، عراق، شام، لیبیا، صومالیہ، سوڈان اور یمن کے شہریوں پر بھی 90 دن (یعنی 3 ماہ) تک امریکا کے ویزوں کے اجراء پر پابندی عائد کردی تھی۔
مزید پڑھیں: امریکی عدالت نے ڈونلڈ ٹرمپ کے احکامات پر عمل روک دیا
ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے متنازع احکامات جاری کیے جانے کے بعد امریکا سمیت دنیا بھر میں مظاہروں کا سلسلہ شروع ہوگیا، جو تاحال مختلف صورتوں میں جاری ہے۔
واشنگتن کی وفاقی عدالت کے حالیہ حکم نامے پر فوری طور پر ہوم لینڈ سیکیورٹی کا رد عمل نہیں آسکا۔
عدالتی احکامات کو چیلنج کیا جائے گا، وائٹ ہاؤس
دوسری جانب وائٹ ہاؤس نے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف دیئے گئے عدالتی فیصلے کو ’اشتعال انگیز‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ان احکامات کو چیلنج کیا جائے گا۔
امریکی نشریاتی ادارے ’سی این این‘ کے مطابق وائٹ ہاؤس کے میڈیا ترجمان شان اسپائسر نے کہا کہ امریکی محکمہ انصاف عدالت کے حکم امتناعی کے خلاف درخواست دائر کرے گا۔
رپورٹ کے مطابق وائٹ ہاؤس نے عدالتی احکامات پر فوری رد عمل دیتے ہوئے عدالتی فیصلے کو ’اشتعال انگیز‘ قراردیا، تاہم اگلے چند لمحوں میں وائٹ ہاؤس ’اشتعال انگیز‘ لفظ سے دستبردار ہوگیا۔
ترجمان کے مطابق صدارتی حکم نامے کا مقصد وطن کی حفاظت کرنا ہے اور آئینی اداروں پر امریکی عوام کی حفاظت کو یقنینی بنانے کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔
ایگزیکٹو احکامات پر ایران، گوگل اور فیس بک کا رد عمل
مسلم ممالک کے شہریوں پر پابندی عائد کیے جانے کے بعد ایران نے سخت مؤقف اختیار کرتے ہوئے اعلان کیا تھا تھا کہ تہران بھی امریکی شہریوں پر پابندی عائد کرے گا۔
یہ بھی پڑھیں: 'گرین کارڈ ہولڈرز' پر بھی امریکا میں داخلے پر پابندی
اس سے قبل انٹرنیٹ ٹیکنالوجی اور سوشل ویب سائٹ فیس بک اور گوگل نے بھی ڈونلڈ ٹرمپ کے فیصلے پر اظہار تشویش کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس فیصلے سے امریکا ذہین تارکین وطن سے محروم ہو جائے گا۔
ڈونلڈ ٹرمپ کے فیصلے کے بعد گوگل نے بیرون ملک سفر پر گئے اپنے 100 ملازمین کو واپس امریکا بلا لیا تھا، جب کہ فیس بک کے بانی مارک زکر برگ کا کہنا تھا کہ وہ خود اور ان کی اہلیہ بھی تارکین وطن ہیں۔