ٹرمپ نے امیگریشن قوانین مزید سخت کرنے کا عندیہ دے دیا
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے دہشت گردی کو مذہبی آزادی کے لیے خطرہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ آنے والے دنوں میں وہ امیگریشن کے حوالے سے مزید سخت اقدامات کریں گے۔
واشنگٹن میں سالانہ دعائیہ تقریب سے خطاب میں ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ 'امریکی امیگریشن پالیسیاں نہایت ہمدردانہ ہیں اور کچھ لوگ اس کا فائدہ اٹھاکر ملک میں داخل ہونا چاہتے ہیں اور مختلف عقائد رکھنے والوں پر ظلم اور تشدد پھیلانا چاہتے ہیں'۔
امریکی خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق ٹرمپ نے کہا کہ 'آنے والے دنوں میں ہم ایسا سسٹم تیار کریں گے جس کے ذریعے اس بات کو یقینی بنایا جاسکے گا کہ جو بھی شخص امریکا میں داخل ہو وہ ہماری مذہبی اقدار اور ذاتی آزادی کو مکمل طور پر قبول کرسکے'۔
ٹرمپ نے کہا کہ 'میری انتظامیہ امریکا میں مذہبی آزادی کا تحفظ یقینی بنانے کے لیے ہر ممکن اقدام اٹھائے گی'۔
ٹرمپ نے آسٹریلین وزیراعظم کے ساتھ ہونے والی تلخ ٹیلی فونک گفتگو کا بھی تذکرہ کیا اور کہا کہ 'اس حوالے سے پریشان ہونے کی ضرورت نہیں، ہمیں سخت رویہ اختیار کرنا پڑے گا کیوں کہ دنیا کی ہر قوم نے ہم سے فائدہ اٹھایا لیکن اب ایسا نہیں چلے گا'۔
امریکی انسداد شدت پسندی پروگرام میں تبدیلی پرغور
یہ اطلاعات بھی سامنے آئی ہیں کہ ٹرمپ انتظامیہ شدت پسندی اور پر تشدد نظریات کی روک تھام کے لیے شروع کیے جانے والے پروگرام کو تبدیل کرنے کرکے اسے صرف اسلامی شدت پسندی پر مرکوز کرنے پر غور کررہی ہے۔
برطانوی خبر رساں ادارے رائٹرز نے ذرائع کے حوالے سے بتایا کہ امریکی حکومت کے پروگرام 'کاؤنٹرنگ وائلنٹ ایسکٹریمزم' سی وی ای کو تبدیل کرکے 'کائونٹرنگ اسلامک ایکسٹریمزم' کردیا جائے گا۔
یہ بھی پڑھیں: امریکی سفری پابندیاں: ڈاکٹرز اور مریضوں کے استثنیٰ کا مطالبہ
ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ تبدیلی کے بعد اس پروگرام کے تحت سفید فام گروہوں کو نشانہ نہیں بنایا جائے گا جو خود بھی امریکا دھماکوں اور فائرنگ کے واقعات میں ملوث رہے ہیں۔
واضح رہے کہ امریکا کے سی وی ایی پروگرام کا مقصد تنظیموں اور ممکنہ تنہا حملہ آوروں کو روکنا ہے اور اس مقصد کے لیے کمیونٹی پارٹنرشپ، تعلیمی پروگرامز اور گوگل و فیس بک کی طرح ٹیکنالوجی کمپنیوں کی مدد حاصل کرنا ہے۔
خیال رہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے گزشتہ ہفتے 27 جنوری 2017 کو ایک ایگزیکٹیوآرڈر کے ذریعے تارکین وطن کے داخلے کا پروگرام معطل کرتے ہوئے 7 مسلمان ممالک کے شہریوں کے امریکا آمد پر بھی پابندی عائد کردی تھی۔
ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا تھا کہ ان اقدامات سے امریکیوں کی دہشت گرد حملوں سے حفاظت کو یقینی بنایا جا سکے گا۔
ڈونلڈ ٹرمپ کے ایسے متنازع احکامات کے بعد امریکا سمیت دنیا بھر میں احتجاج کا سلسلہ شروع ہوگیا، جب کہ انٹرنیٹ ٹیکنالوجی اور سوشل ویب سائٹس کی مشہور کمپنیوں گوگل اور فیس بک نے بھی ڈونلڈ ٹرمپ کے احکامات پر خدشات کا اظہار کیا۔