آخر ہم اعتدال پسند کیوں نہیں؟
ستر کی دہائی میں جب پاکستان میں لبرل ازم کی اصطلاح خواص تک محدود تھی، تب کسی کسی گھر میں آزاد خیالی کا لفظ پروان چڑھ رہا تھا۔ بوسیدہ روایات اور عقل سے عاری مرتب کردہ اصولوں سے انکار، آپ کو خاندان بھر میں آزاد خیال مشہور کر دیتا تھا۔ غضب خدا کا، بزرگوں کے سامنے سگریٹ سلگا لیتا ہے، کچھ زیادہ ہی آزاد خیال ہو گیا ہے۔
چند دہائی بعد، اس لڑکی کو دیکھو، کیسے پتلون پہنے یہاں وہاں مٹک رہی ہے، کچھ زیادہ ہی لبرل ہو گئی ہے۔ افسوس یہ ہے کہ ہم شروع سے ہی لفظوں کو صرف برتتے ہیں، اور آگے چل کر الفاظ کا یہ غلط استعمال ایک ایسی سرحد کی بنیاد رکھ دیتا ہے جس کی بنیاد تعصب اور عدم برداشت پر رکھی گئی ہوتی ہے۔
سترہویں صدی میں ایک فلسفی تھے جان لاک، جنہیں لبرل ازم کا بانی تصور کیا جاتا ہے۔ بنیادی طور پر لبرل ازم آپ کو کہتا ہے کہ ہر شخص آزاد ہے، مذہب کے لیے، رائے کے اظہار کے لیے، تجارت کے لیے، شہری حقوق کے لیے، جمہوری اقدار کے مطابق حکومت کرنے کے لیے۔
دنیا میں جتنے بھی ازم ہیں اُن سب کی بنیاد اخلاقیات پر رکھی گئی ہے جیسے کہ سوشلزم، کمیونزم، وغیرہ۔ اور دنیا میں اسلام سمیت جتنے بھی مذہب ہیں وہ ازم سے چند درجے آگے ہیں، مثال کے طور پر اسلام، عیسائیت، یہودیت۔
ازم اور مذہب میں بنیادی فرق ضابطہءِ اخلاق اور ضابطہءِ حیات کا ہے۔ دنیا کا کوئی بھی ازم مکمل ضابطہءِ حیات نہیں دیتا جبکہ مذہب آپ کو ایک ضابطہءِ حیات دیتا ہے، اور اسلام اس سے آگے بڑھتے ہوئے آپ کو ایک مکمل ضابطہءِ حیات دیتا ہے۔ معاشرت، تجارت، تعلقات، وراثت، قانون و عدل، ہر چیز کے متعلق ایک ایسا نظام حیات جو آپ کی طرز زندگی کو خود آپ کے اور تمام انسانوں کے لیے سہل اور باعث امن بنا دیتا ہے۔
لبرل ازم میں جتنے بنیادی نکات ہیں وہ سب کچھ رد و بدل کے ساتھ دنیا کا ہر مذہب مانتا ہے۔ برسوں ہوئے کہیں پڑھا تھا کہ اسلام میانہ روی اور اعتدال پسندی کا سبق دیتا ہے۔ اسلام بھی آپ کو آزادی دیتا ہے، آپ آزاد ہیں رائے دینے میں، اپنی مرضی کا مذہب اختیار کرنے اور اپنی عبادت گاہوں میں جانے کے لیے، آپ آزاد ہیں اپنے حقوق کے لیے، آپ آزاد ہیں برابری کی سطح پر رہنے اور زندگی بسر کرنے کے لیے، اسلام شدت کی مخالفت کرتا ہے، شدت منفی ہو یا مثبت، بے اعتدالی کا سبب بن ہی جاتی ہے اور بے اعتدالی پھر کہیں نہ کہیں بگاڑ کو جنم دیتی ہے۔
لبرل ہوں یا بقول لبرلز کے مولوی، دونوں گروہوں میں سے کوئی بھی بنیادی طور پر اپنی اساس سے واقف نہیں، اور اگر واقف ہو بھی تو اس سے نظریں چُراتا ہے۔ لبرلز تمام مولوی حضرات کو شدت پسند بولتے ہیں۔ ڈھونڈنے سے ہی کوئی ایسا لبرل ملے گا جو کسی مذہبی شخص کا مذاق اڑاتا ہوا نہ پایا جائے۔ دوسری جانب مولوی حضرات کے نزدیک تمام لبرلز دشمنانِ دین میں شامل ہیں اور سیدھے جہنم کا ایندھن بنیں گے۔
ایک دوسرے کے نظریات کا احترام نہ کرنا یہ ثابت کرتا ہے کہ دونوں طرف کے لوگ اپنی سوچ کی بنیادی تعلیمات سے آگاہ نہیں، اچھے اخلاق، نظریات اور مذہب کا احترام دونوں طرف کی تعلیم کا بنیادی جز ہے۔
اُردو میں لبرل کے معنی آزاد خیال کے ہیں۔ آزاد خیالی بذات خود اپنی جہت میں فطرت سے متصادم ہے کیوں کہ فطرت کبھی بھی کہیں بھی آپ کو مکمل آزادی نہیں دیتی۔ پابندی فطرت کا حصہ ہے اور اگر آپ اس پابندی کے خلاف جائیں گے تو جو بھی خمیازہ ہو، وہ بھگتنا پڑتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ مادر پدر آزادی دنیا کا کوئی بھی ازم یا مذہب نہیں دیتا۔ پابندی لازمی عائد کی جاتی ہے، لبرل ازم کہتا ہے آزادی رائے، مگر نفرت انگیز رائے کی اجازت نہیں، مذہب کہتا ہے، آزادی رائے کی اجازت ہے مگر کسی کی دل آزاری کی قطعی اجازت نہیں۔ کسی بھی نفرت انگیز نظریے کو فروغ دینا یا اُس کا حامی بن جاتا کسی بھی ازم یا مذہب کا خاصہ نہیں۔ ایک دوسرے کے عقیدے اور نظریات کا احترام معاشرے میں برادشت اور محبت کے عمل کو مہمیز کرتا ہے۔ انفرادی یا اجتماعی عمل سے کسی مذہب یا ازم کی پہچان نہیں کریں، آپ کا غلط عمل کسی بھی طرح ازم یا مذہب کی پہچان نہیں۔
میں اپنے ارد گرد واضح طور پر لوگوں کو دو انتہائی سمتوں میں تقسیم ہوتا دیکھ رہا ہوں۔ دونوں طرف شدت ہے اور برداشت کی کمی، حقائق کو جانے بغیر الزام لگانے کی جلدی، اور مثال کو سمجھے بغیر مذاق اُڑانے کا جنون۔
بیرونِ ملک قیام کے دوران مجھے ایک سیمینار میں شرکت کا موقع ملا۔ ڈاکٹر پروفیسر برن ہارڈ نکل ہارورڈ یونیورسٹی میں فلسفے کے اُستاد ہیں۔ زبان اور رویہ اُن کی تحقیق کا خاص موضوع تھا۔ انہوں نے سیمینار میں ایک اہم نکتہ اُٹھایا۔ انہوں نے کہا لوگ سمجھتے ہیں کہ دنیا میں نفرت یا تعصب زبان اور لوگوں کے برتاؤ کی بنیاد پر ہوتی ہے۔ یہ بھی ایک عنصر ہے، مگر اس سے کہیں زیادہ محبت یا نفرت کا تعلق لوگوں کے نظریات سے ہے۔ لوگ کسی بھی ایک نظریے پر قائم رہ کر زندگی گزارنا پسند کرتے ہیں اور اُسی نظریے کی بنیاد پر اردگرد کے لوگوں سے برتاؤ کرتے ہیں۔ اس برتاؤ میں اگر اعتدال ہے تو آسانی ہے، مگر جیسے ہی اس میں شدت آتی ہے یہ آگے جا کر نفرت کے فروغ کا سبب بن جاتا ہے۔
پاکستان میں یہ ہی عنصر غالب ہے۔ دونوں سمت شدت ہے، بہت تھوڑے لوگ ہیں جو برداشت اور آزادی رائے کی اصل روح کو سمجھتے ہوئے چلتے ہیں۔ سوشل میڈیا کو ہم محبت و برداشت کے فروغ کے بجائے مذاق اُڑانے اور اپنے نظریات دوسروں پر ٹھونسنے کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔
مجھے اپنے اردگرد بہت کم لبرل اور اور بہت کم عالم ایسے نظر آتے ہیں جن کے پاس محبت اور برداشت ہے۔ مختلف بلاگ سائٹس منظر عام پر آچکی ہیں، بدقسمتی سے ہر سائٹ کا ایک مسلک ایک بلاک ہے۔ پاکستان میں چند ہی بلاگ سائٹ مشہور ہیں اور یہ بھی بدقسمتی ہے کہ اُن کے مدیران سے لے کر لکھنے والوں تک کی تحریر میں کہیں نہ کہیں شدت پسندی نظر آتی ہے۔ لفاظی سے مخالف کے پرخچے اُڑانے، اور مذاق اُڑانے کی عادت، یا فتویٰ لگانے کی جلد بازی۔
مشہور سے مشہور لبرل بھی اندر سے شدت پسند ہے اور نفرت کا داعی ہے، اور مذہبی طبقہ بھی اپنے مذہب و مسلک پر عمل کرنے والے کے علاوہ کسی کو برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں۔ ایسے میں صرف میانہ روی اور اعتدال پسندی ہی معاشرے میں برداشت، امن اور محبت کو فروغ دے سکتی ہے، ضرورت صرف اسے اختیار کرنے کی ہے۔
تبصرے (2) بند ہیں