فرانس کے بعد آسٹریا میں بھی 'نقاب پر پابندی'
ویانا: یورپی ملک آسٹریا کے حکومتی اتحاد نے اسکولوں، عدالتوں اور دیگر عوامی مقامات میں 'نقاب' اور 'برقعہ' پر پابندی پر غور شروع کردیا۔
برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق حکمراں اتحاد تمام سرکاری ملازمین پر اسکارف اور مذہب سے کی علامت سمجھی جانے والی کوئی بھی شے پہننے پر پابندی عائد کرنے کا بھی سوچ رہی ہے۔
رپورٹس کے مطابق یہ اقدامات انتہائی دائیں بازو کی فریڈم پارٹی کی بڑھتی ہوئی مقبولیت کو کم کرنے کے لیے اٹھائے جارہے ہیں جس کے امیدواروں نے گزشتہ ماہ ہونے والے صدارتی انتخاب میں حکمراں پارٹی کو ٹف ٹائم دیا تھا۔
حکومت کی جانب سے جاری کردہ تفصیلات میں بتایا گیا کہ اسلامی نقاب اور برقعے پر پابندی لگانے کا منصوبہ ہے۔
یہ بھی پڑھیں: یورپی عدالت میں نقاب پر فرانسیسی پابندی کی توثیق
بیان میں کہا گیا کہ 'ہم ایک کھلے معاشرے کے حق میں ہیں چہرے کا مکمل نقاب اس کے خلاف ہے لہٰذا اس پر پابندی ہونی چاہیے'۔
ایک اندازے کے مطابق آسٹریا میں تقریباً 150 خواتین چہرے کا مکمل نقاب کرتی ہیں اور ٹورزم حکام نے خبردار کیا ہے کہ اس اقدام سے خلیجی ممالک سے آنے والے سیاحوں کی تعداد میں کمی واقع ہوسکتی ہے۔
واضح رہے کہ اس سے قبل متعدد یورپی ممالک اس طرح کی پابندیاں عائد کرچکے ہیں تاہم آسٹریا کی وائس چانسلر کا کہنا ہے کہ یہ ایک 'علامتی' اقدام ہے۔
مزید پڑھیں: ہالینڈ میں نقاب پہننے پر جرمانہ
فرانس اور بلجیم نے 2011 میں برقعہ پر پابندی عائد کی تھی جب کہ نیڈرلینڈ کی پارلیمنٹ میں بھی اس پر بحث جاری ہے۔
گزشتہ ماہ جرمن چانسلر انجیلا میرکل نے بھی کہا تھا کہ نقاب پر جس حد تک ممکن ہو پابندی ہونی چاہیے جبکہ برطانیہ میں اس طرح کی کوئی پابندی عائد نہیں ہے۔