تھر کی 25 فیصد آبادی شناختی کارڈز سے محروم
مٹھی: مختلف سماجی رہنماؤں نے حکام سے مطالبہ کیا ہے کہ آئندہ مردم شماری میں خود کو رجسٹرڈ کرانے کے لیے سندھ کے ضلع تھرپارکر کے رہائشیوں کو کمپیوٹرائزڈ قومی شناختی کارڈز کی فراہمی کے لیے علاقے میں موبائل وین بھیجی جائیں۔
تھرایکشن فورم کی جانب سے تھرپریس کلب میں پیر 30 جنوری کو ہونے والی کانفرنس کے شرکاء نے انکشاف کیا کہ تھر کے 25 فیصد لوگوں کے پاس شناختی کارڈز نہیں ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: ‘مردم شماری کا پہلا مرحلہ مارچ میں ہوگا‘
پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے مقامی رہنما اور فورم کے چیئرمین نند لال مالہی کا کہنا تھا کہ ایک طرف تو 25 فیصد افراد کے پاس شناختی کارڈز نہیں ہیں، دوسری طرف علاقے کے 35 یا 40 فیصد لوگ روزگار کی غرض سے گندم کی کٹائی کے لیے بیراجی علاقوں کی طرف نقل مکانی کرگئے ہیں۔
انہوں نے مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ تھر میں مردم شماری کے مرحلے کو دوسرے فیز کے بعد شروع کیا جائے، تاکہ تمام لوگوں کو اس میں باآسانی شمارکیا جاسکے، ان کے خیال میں تھرکے منتخب نمائندوں کو اس حساس معاملے کو مناسب فورمز پر اٹھانا چاہئیے۔
سماجی رہنما ماما وشن تھری کا خیال تھا کہ یہ ناممکن ہے کہ دوسرے مرحلے میں تھر کے تمام شہریوں کو مردم شماری میں رجسٹرڈ کیا جائے، انہوں نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ تھر کا علاقہ پہلے ہی کئی مسائل کا شکار ہے، اگر مردم شماری میں نصف آبادی رجسٹرڈ ہونے سے محروم رہ گئی تو آنے والے سالوں میں یہاں مسائل برقرار رہیں گے۔
انہوں نے مطالبہ کیا کہ مردم شماری کے دوران تھر میں اجنبیوں اور کاروبار کرنے والوں سمیت تھرکول منصوبے میں کام کرنے والے غیر ملکیوں کو رجسٹر نہ کیا جائے۔
ڈاکٹر اشوک بھکتانی نے زور دیتے ہوئے کہا کہ سندھ حکومت کو تھر کے لوگوں کے تحفظات کا معاملہ وفاقی حکومت کے سامنے اٹھانا چاہئیے۔
مزید پڑھیں: مردم شماری: 2 لاکھ فوجی اہلکار تعینات کرنے کی منظوری
کرشن شرما کا خیال تھا کہ اگر ان کے مطالبات نہ مانے گئے تو یہ تھر کے لوگوں کے لیے بہت بڑی بدقسمتی ہوگی۔
کانفرنس سے جی آر جونیجو، نظام سموں، کھٹو جانی، نانا لال لوہانو، دلیپ دوشی میگھواڑ، سراج سومرو، عمر نہڑیو اور محمد حنیف بجیر نے بھی خطاب کیا۔
دریں اثناء کانفرنس کے دوران معاملے کو اعلیٰ حکام کے سامنے اٹھانے کے لیے مقامی منتخب نمائندوں، سرگرم کارکنوں اور سول سوسائٹی کے نمائندوں پر مشتمل 17 رکنی کمیٹی بھی تشکیل دی گئی۔
یہ خبر 31 جنوری 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی